جاپان کی مچھلی کی ایک ڈش ’سوشی‘ دنیا بھر میں مشہور ہےاور اکثر ملکوں میں سوشی کی ڈش مہنگے داموں بکتی ہے ۔ اگر مچھلی بھی جاپان کی ہو پھر اس کے سونے جیسے دام لگتے ہیں، لیکن اب اچانک جاپانیوں سمیت دیگر ملکوں کے اکثر لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ جاپانی مچھلی نہیں کھائیں گے۔
جاپانی مچھلی کے بائیکاٹ کا ماضی کے ان تلخ واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کی شکایت اب بھی جاپان کے پڑوسی ملک گاہے گاہے کرتے رہتے ہیں۔اس بائیکاٹ کی ڈوریاں جاپان کے ایٹمی بجلی گھر فوکوشیما سے سمندر میں ڈالے جانے والے پانی سے جڑی ہیں۔
فوکوشیما میں پانی کہاں سے آیا؟
جوہری ریکٹر میں جب ایٹم کو توڑا جاتا ہے تو بڑے پیمانے پر حرارت خارج ہوتی ہے جسے کنٹرول میں رکھنے کے لیے ایک خاص قسم کا پانی، جسے بھاری پانی کہا جاتا ہے، استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن فوکوشیما کے پانی کا معاملہ کچھ اور ہے۔
اس پانی کی کہانی 2011 میں جاپان میں آنے والے زلزلے اور سمندری طوفان سے شروع ہوتی ہے۔ اس طوفان سے فوکوشیما کے نیوکلیئر پلانٹ کو بھاری نقصان پہنچا تھا اور سیلاب کا پانی ریکٹر میں داخل ہونے سے تابکار عناصر پانی میں شامل ہو گئے تھے۔ تابکاری کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اس پانی کو بڑے بڑے ٹینکوں میں محفوظ کر دیا گیا تھا۔
تاہم اس دوران جوہری پلانٹ سے کچھ تابکاری خارج بھی ہوئی جس کے خطرے کے پیش نظر ایک لاکھ سے زیادہ آبادی کو علاقے سے نکالنا پڑا۔اور پھر ایٹمی بجلی گھر کی مخالفت بڑھنے پر جاپان نے اسے بند کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ جاپانیوں کو دوسری جنگ عظیم میں ایٹمی بم کی تابکاری کا تجربہ ہو چکا ہے اور 80 برس گزر جانے کے بعد تابکاری کے اثرات پوری طرح زائل نہیں ہو سکے ہیں۔
فوکوشیما کا جوہری پلانٹ 2012 سے بند ہے اور اسے مرحلہ وار ختم کیا جا رہاہے۔ اب جب کہ پلانٹ کی بندش کا عمل اپنے آخری مراحل میں ہے تو ٹینکوں میں محفوظ کیے گئے تابکار پانی ٹھکانے لگانے کا معاملہ ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آ گیا ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ فوکوشیما بجلی گھر کا شمار دنیا کے 15 سب سے بڑے جوہری بجلی گھروں میں کیا جاتا ہے۔ یہ پلانٹ 860 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے اور یہاں چھ ریکٹر نصب ہیں۔ محفوظ کیے جانے والے تابکار پانی کا وزن 13 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ ہے، جسے اگر تالابوں میں ڈالا جائے تو اولمپکس کے پیراکی مقابلوں میں استعمال ہونے والے 500 تالاب بھرے جا سکتے ہیں۔
پانی کا مسئلہ کیسے پیدا ہوا؟
جوہری پلانٹ کے تقریباً ایک ہزار ٹینکوں میں محفوظ کیے گئے تابکار پانی کا مسئلہ اس وقت سامنے آی، جب ا پلانٹ کو مکمل طور پر ختم کرنے کے انتظامات کو آخری شکل دی جا رہی تھی اور اس جگہ کو بھی خالی کرنا تھا جہاں پانی کے ٹینک رکھے گئے تھے۔
جاپان کی حکومت نے اس سلسلے میں جوہری توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے سے رابطہ کیا اور اس کی مشاورت سے تابکار پانی کی صفائی ( ٹریٹمنٹ) کی گئی۔ جوہری بجلی گھر چلانے والی کمپنی ٹیپکو کا کہنا ہے کہ صفائی کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور اب پانی میں تابکار عنصر ٹائیٹینم کی مقدار خطرے کی سطح سے بہت نیچے جا چکی ہے۔ جاپانی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پانی کو سمندر میں بہانا ہر لحاظ سے محفوظ ہے۔
تاہم ماحولیات کے سرگرم کارکن اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔وہ کہتے ہیں کہ تابکار پانی سمندر میں ڈالنے سے سمندری حیات متاثر ہو گی اور تابکار مادے مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں کے اندر چلے جائیں گے اور ان کا گوشت استعمال کرنے سے انسان بھی متاثر ہوں گے۔
جاپانی حکام نے کہا ہے کہ انہوں نے حفاظت سے متعلق تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد 24 اگست سے فوکوشیما پاورپلانٹ کا پانی سمندر میں پھینکنا شروع کر دیا ہے، کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
جاپانی اقدام کے خلاف شدید ردعمل
فوکوشیما پاور پلانٹ کا پانی سمندر میں ڈالنے کے خلاف جاپان کے اندر اور پڑوسی ملکوں میں شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔
سمندر میں پانی چھوڑے جانے کی خبروں کے بعد چین نے جاپان سے سمندری خوراک کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے۔ چین کی وزارت تجارت کے ترجمان شو جوئٹنگ نے اس اقدام کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے عالمی سمندری ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔
ہانگ کا نگ اور مکاؤ نے کہا ہے کہ وہ فوکوشیما اور جاپان کے دوسرے نو صوبوں سے مچھلی اور دیگر سمندری خوراک کی درآمد پر پابندی لگا رہے ہیں۔
شمالی کوریا کی وزارت خارجہ نے اس اقدام کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام کے تباہ کن نتائج کی ذمہ داری جاپان کو ہی قبول کرنا ہو گی۔
تاہم جنوبی کوریا کی حکومت نے جاپان کے اس بیان سے اتفاق کیا ہے کہ فوکوشیما کا پانی سمندر میں چھوڑنے سے آبی ماحول پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن دوسری جانب جنوبی کوریا کے عوام کی اکثریت نے جاپانی اقدام کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے سیول میں جاپانی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کیا اور کئی سرگرم کارکن عمارت کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے 16 کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔
جنوبی کوریا کی حزب اختلاف کی مرکزی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ صدر یون سک یول کی انتظامیہ اور حکمران جماعت تابکارپانی کو سمندر میں شامل کرنے کے جرم میں جاپان کے شراکت دار ہیں۔
جنوبی کوریا میں کرائے گئے ایک سروے میں 80 فی صد سے زیادہ رائے دہندگان نے جاپان کے اس اقدام کی مخالفت کی اور 60 فی صد سے زیادہ نے کہا کہ وہ سمندری خوراک استعمال نہیں کریں گے۔
تابکار پانی سمندر میں ڈالنے کی خبروں سے جنوبی کوریا کی مچھلی مارکیٹ پر انتہائی منفی اثر پڑا ہے۔ مچھلی کے ایک تاجر کم ہاؤ نے بتایا کہ آج میرے پاس کوئی خریدار نہیں آیا جب کہ عام طور پر میری روزانہ کی فروخت تین سو سے 380 ڈالر تک ہوتی ہے۔
ہانگ کانگ کے جاپانی ریستورانوں نے کہا ہے کہ فی الحال وہ سوشی کے لیے پہلے سے خریدی ہوئی جاپانی مچھلی استعمال کر رہے ہیں اس لیے وہ محفوظ ہے۔لیکن مارکیٹ رپورٹ کے مطابق گاہک وہاں جانے سے ہچکچا رہے ہیں۔
جاپان کے اندر اس فیصلے پر ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ کچھ لوگ اسے صحت کے لیے خطرناک قرار دے رہے ہیں جب کہ کئی ایک کا کہنا ہے کہ ٹریٹمنٹ ہو جانے کے بعد اس کے مضر اثرات ختم ہو گئے ہیں۔
ٹوکیو کی ایک خاتون ایمی نے اے پی کو بتایا کہ میرے نزدیک صحت کی اہمیت ہے، مچھلی کی نہیں۔ میں نے آج سے مچھلی کھانا چھوڑ دی ہے۔
آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ ہمارے ساتھ ضرور شیئر کیجئے گا۔