قرارداد کے متن میں مزید کہا گیا ہے کہ " ڈی این اے ٹیسٹ پر آنے والے اخراجات حکومت سندھ برداشت کرے کیوں کہ 'ڈی این اے ٹیسٹ' مہنگا ہونے کے باعث زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کے لئے ٹیسٹ کے اخراجات اٹھانا مشکل ہوتا ہے۔
کراچی —
پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کی اسمبلی میں جنسی زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ (جینیاتی تجزیہ) کو لازمی قراردینے کا بل 2013 منظور کیا ہے۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران ڈی این اے ٹیسٹ سے متعلقہ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ "زیادتی کے تمام کیسز میں ڈی این اے لازمی قراردیا جائے ۔
قرارداد کے متن کے مطابق ’’ڈی این اے ٹیسٹ پر آنے والے اخراجات حکومت سندھ برداشت کرے کیوں کہ مہنگا ہونے کے باعث زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کے لئے ٹیسٹ کے اخراجات اٹھانا مشکل ہوتا ہے۔‘‘
یہ قرارداد پیپلزپارٹی کی رکن اسمبلی شرمیلا فاروقی نے پیش کی جس کی منظوری سمیت صوبہ سندھ میں جدید فرانزک سسٹم اور ڈی این اے لیبارٹریوں کے قیام پر بھی زور دیا گیا۔
پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل نے ایسے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شواہد کے طور پر استعمال کرنے کو ناقابل قبول قراردیا تھا۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے اس فیصلے کے بعد انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان نے اس تجویز کو جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے افراد کیلئے ظالمانہ فعل قراردیا جبکہ پاکستان میں مختلف تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے اس تجویز ہر شدید رد عمل کا اظہار بھی دیکھنے میں آیا۔
خواتین اور بچوں کیلئے کام کرنےوالے نجی ادارے مددگار نیشنل ڈیٹا بیس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پانچ ماہ کے دوران پاکستان بھر میں خواتین سے زیادتی کے واقعات کی تعداد 241 ہے جبکہ گزشتہ سال ریپ کیسز کی تعداد 675 کے لگ بھگ تھی۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران ڈی این اے ٹیسٹ سے متعلقہ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ "زیادتی کے تمام کیسز میں ڈی این اے لازمی قراردیا جائے ۔
قرارداد کے متن کے مطابق ’’ڈی این اے ٹیسٹ پر آنے والے اخراجات حکومت سندھ برداشت کرے کیوں کہ مہنگا ہونے کے باعث زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کے لئے ٹیسٹ کے اخراجات اٹھانا مشکل ہوتا ہے۔‘‘
یہ قرارداد پیپلزپارٹی کی رکن اسمبلی شرمیلا فاروقی نے پیش کی جس کی منظوری سمیت صوبہ سندھ میں جدید فرانزک سسٹم اور ڈی این اے لیبارٹریوں کے قیام پر بھی زور دیا گیا۔
پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل نے ایسے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شواہد کے طور پر استعمال کرنے کو ناقابل قبول قراردیا تھا۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے اس فیصلے کے بعد انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان نے اس تجویز کو جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے افراد کیلئے ظالمانہ فعل قراردیا جبکہ پاکستان میں مختلف تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے اس تجویز ہر شدید رد عمل کا اظہار بھی دیکھنے میں آیا۔
خواتین اور بچوں کیلئے کام کرنےوالے نجی ادارے مددگار نیشنل ڈیٹا بیس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پانچ ماہ کے دوران پاکستان بھر میں خواتین سے زیادتی کے واقعات کی تعداد 241 ہے جبکہ گزشتہ سال ریپ کیسز کی تعداد 675 کے لگ بھگ تھی۔