بھارتی وزیرِ اعظم کے سیکیورٹی انتظامات میں کوتاہی کا معاملہ، کسانوں کے احتجاج کے باعث قافلہ 20 منٹ تک رکا رہا

فائل فوٹو

وزیرِ اعظم نریندر مودی بدھ کو ریاست پنجاب کے فیروز پور میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرنے والے تھے۔ البتہ ان کی سیکیورٹی میں اس وقت زبردست غفلت کا معاملہ سامنے آیا جب ٹریفک بند ہونے کی وجہ سے ان کے قافلے کو ایک فلائی اوور پر لگ بھگ 20 منٹ تک رکنا پڑا۔

بالآخر وزیرِ اعظم وہاں سے واپس روانہ ہوئے اور ان کی ریلی منسوخ کر دی گئی۔ وزارتِ داخلہ نے اسے وزیرِ اعظم کی سیکیورٹی میں بڑی کوتاہی قرار دیا ہے۔ وزیرِ اعظم کی سیکیورٹی میں مبینہ کوتاہی کا یہ معاملہ بھارت میں بڑے پیمانے پر زیر بحث ہے۔

حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور پنجاب کی کانگریسی حکومت کے درمیان متضاد بیانات کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ مرکزی حکومت اور بی جے پی کی جانب سے اس معاملے میں پنجاب کی کانگریس حکومت کو ذمہ دارٹھیرایا جا رہا ہے۔ جب کہ پنجاب کی حکومت اسے تسلیم نہیں کر رہی ہے۔

پنجاب کے کسانوں کی جانب سے مرکزی وزیر مملکت اجے مشرا کو بر طرف کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا پر لکھیم پور کھیری میں کسانوں پر گاڑی چڑھا کر انہیں ہلاک کرنے کا الزام ہے۔

اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) نے عدالت میں پانچ ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں آشیش مشرا کو کلیدی ملزم قرار دیا گیا ہے۔

وزیراعظم کی سیکیورٹی میں مبینہ غفلت کے واقعے کے بعد مرکزی وزارتِ دفاع نے ایک بیان جاری کرکے بتایا کہ وزیرِ اعظم فضائی راستے سے بدھ کی صبح بٹھنڈہ پہنچے جہاں سے انھیں بذریعہ ہیلی کاپٹر حسینی والا میں قومی شہدا کی یادگار جانا تھا۔

بیان کے مطابق بارش اور موسم کی خرابی کی وجہ سے بذریعہ سڑک یادگار تک جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پنجاب پولیس کے سربراہ کی جانب سے سیکیورٹی انتظامات کی تصدیق کے بعد قافلہ چل پڑا تھا۔

وزارتِ داخلہ کے مطابق یادگار سے 30 کلومیٹر دور جب مودی کا قافلہ ایک فلائی اوور پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ آگے سڑک کسانوں کے دھرنے کی وجہ سے بند ہے۔ وزیرِ اعظم وہاں 15 سے 20 منٹ تک پھنسے رہے۔ بالآخر انھوں نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ مرکزی حکومت اسے وزیرِ اعظم کی سیکیورٹی میں ایک بڑی غفلت قرار دے رہی ہے۔

وزیرِ داخلہ امت شاہ نے اس پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا اور کہا کہ ذمہ داروں کی نشاندہی اور ان سے جواب طلب ہو گی۔

انھوں نے پنجاب حکومت سے اس سلسلے میں رپورٹ طلب کی ہے۔ انھوں نے اس واقعے کے لیے کانگریس کو ذمہ دار ٹھیرایا اور اس سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔

مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے بھی ایک نیوز کانفرنس کر کے کانگریس کو موردِ الزام ٹھیرایا اور کہا کہ کانگریس وزیرِ اعظم مودی سے نفرت کرتی ہے البتہ آج اس نے ملک کے وزیرِ اعظم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ انھوں نے اسے کانگریس کا ’خونی ارادہ‘ قرار دیا۔

بی جے پی نے سوشل میڈیا پر دو منٹ کی ایک ویڈیو جاری کرکے کہا کہ ’وزیرِ اعظم نے پاکستان اور خالصتان کے حامیوں کی سازش کو ناکام بنا دیا ہے اور ملک کو فسادات کی آگ میں جھونکنے کے کانگریس کے کھیل کو بے نقاب کر دیا ہے۔

ویڈیو میں سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ ’وزیرِ اعظم مودی پر حملہ کرنے کا منصوبہ کس کا تھا؟ کیا یہ پاکستان کا منصوبہ تھا یا خالصتان کا؟ کیا کانگریس اس منصوبے کی مکمل حمایت کر رہی ہے؟

بی جے پی نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر وزیرِ اعظم آگے بڑھتے تو کیا ہوتا؟ فساد، حملہ، خون خرابہ؟ وزیرِ اعظم کو قتل کرنے کی کوشش؟

ویڈیو کے آخر میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم نے پاکستان، خالصتان اور کانگریس کی سازش کو ناکام بنا دیا ہے۔

خیال رہے کہ کانگریس کی جانب سے اس الزام پر تاحال کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے بدھ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کے قافلے میں سیکیورٹی کی کوئی غفلت نہیں ہوئی۔ وزیرِ اعظم کے دفتر (پی ایم او) کو سیاست میں گھسیٹ کر اس کے وقار کو کم نہ کیا جائے۔ اسمبلی انتخابات میں اپنی ممکنہ شکست کا احساس کرکے اس معاملے کو اترپردیش کے انتخابات میں استعمال نہ کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ فیروز پور کی ریلی کے لیے 10 ہزار سیکیورٹی جوان تعینات کیے گئے تھے۔

ان کے مطابق بی جے پی کو یہ معلوم تھا کہ کسانوں کی تنظیم ’کسان سنگھرش مزدور کمیٹی‘ وزیرِ اعظم کے دورے کی مخالفت کر رہی ہے۔ مرکزی وزیر گجیندر سنگھ شیخاوت کسانوں سے دو بار بات چیت کر چکے تھے۔

پنجاب میں کانگریس کے صدر نوجوت سنگھ سدھو نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیرِ اعظم کی ریلی میں کرسیاں خالی تھیں۔ انھوں نے ’ 70 ہزار کرسیاں اور 700 بندے ہیش ٹیگ سے ایک ٹوئٹ کی ہے۔ انھوں نے بھی سیکیورٹی میں غلفت کے الزام کو مسترد کیا۔

پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ چرنجیت سنگھ چنی نے کہا کہ بی جے پی کی ریلی میں 70 ہزار کرسیوں کا انتظام کیا گیا تھا مگر صرف سات سو لوگ آئے تھے۔

پنجاب حکومت کے ایک وزیر راج کمار وراکا نے کہا کہ بی جے پی کی ریلی ایک فلاپ شو تھا۔ جب وزیرِ اعظم کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے واپسی کا فیصلہ کیا۔

کانگریس کے بعض دیگر رہنماؤں نے بھی دعویٰ کیا کہ ریلی میں 70 ہزار کرسیوں کا انتظام کیا گیا تھا لیکن صرف سات سو افراد ہی پہنچے تھے۔ اس لیے وزیرِ اعظم نے ریلی منسوخ کر دی۔

وزیر اعلیٰ چرنجیت سنگھ چنی نے اسمرتی ایرانی کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد ایک پریس کانفرنس کی اور ان کے الزامات کو مسترد کیا۔

انھوں نے کہا کہ وہ خود بٹھنڈہ ایئر پورٹ پر وزیرِ اعظم کا خیر مقدم کرنے والے تھے البتہ ان کے پرنسپل سیکریٹری کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے کی وجہ سے وہ نہیں جا سکے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ وزیرِ اعظم کا پروگرام بذریعہ ہیلی کاپٹر حسینی والا جانے کا تھا لیکن ان کی حکومت کو آخر میں بتایا گیا کہ وہ زمینی راستے سے جائیں گے۔ اس کے باوجود پنجاب پولیس نے حفاظتی انتظامات کیے اور ان کو متبادل راستے کی بھی تجویز پیش کی۔

انھوں نے مزید کہا کہ کسان ایک سال سے پر امن احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کو وہاں سے ہٹانے کے لیے وہ طاقت کا استعمال نہیں کر سکتے تھے۔

ریاستی حکومت کے ایک ترجمان نے جمعرات کو میڈیا کو بتایا کہ وزیرِ اعظم کے قافلے میں سیکیورٹی کی مبینہ غفلت کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو تین روز کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

وزیرِ اعظم کی سیکیورٹی میں غفلت کا معاملہ اب سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔ ’لائرز وائس‘ نامی ایک تنظیم نے عدالت عظمیٰ میں پٹیشن دائر کی ہے جس پر سپریم کورٹ جمعے کو سماعت کرے گی۔

Your browser doesn’t support HTML5

بھارت: کسانوں کے احتجاج میں پاکستانی شاعر کے چرچے

بھارتیہ کسان یونین (کرانتی کاری) کے صدر سرجیت سنگھ پھول نے جمعرات کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب فیروز پور کے ایس ایس پی نے ان لوگوں سے جا کر کہا کہ سڑک خالی کر دیں اس راستے سے وزیرِ اعظم جانے والے ہیں تو ہمیں اس پر یقین نہیں آیا، ہم نے سمجھا وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کسان وزیرِ اعظم کے قافلے سے 10 کلومیٹر دور تھے۔ انہیں نہیں معلوم تھا کہ وہ سڑک کے راستے آ رہے ہیں۔ بعد میں گاؤں کے لوگوں نے بتایا کہ فلائی اوور پر وزیرِ اعظم کا قافلہ تھا۔ انھوں نے آخری لمحات میں وزیرِ اعظم کے روٹ میں تبدیلی پر سوال اٹھایا۔

کسان رہنما راکیش ٹکیت نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب کسان وہاں مظاہرہ کر رہے تھے تو وزیرِ اعظم کو فیروز پور نہیں جانا چاہیے تھا۔

تاہم انھوں نے اس معاملے پر مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں کو موردِ الزام ٹھیرایا اور کہا کہ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔