سیما حیدر کی اپنے چار بچوں کے ہمراہ بھارت روانگی کے بعد پاکستان میں مقیم ہندوؤں کو دھمکیاں ملنے کی شکایات سامنے آئی ہیں۔
ایسی کئی ویڈیوز میں سندھ کے شمالی اضلاع کے کچے کے علاقوں میں چھپے سرکردہ ڈاکوؤں نے کہا ہے کہ سیما حیدر کو واپس پاکستان لایا جائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ ہندوؤں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنائیں گے۔
اس دھمکی کے بعد ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات سندھ ہی کے ضلع کشمور کے علاقے غوث پور میں ہندوؤں کے لیے مقدس سمجھے جانے والے ایک دربار کے قریب مبینہ حملہ ہوا جس میں فائرنگ کے ساتھ راکٹ لانچر بھی استعمال کیا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ حملے کے بعد ملزمان موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ دربار ہندو باگڑی کمیونٹی کا ایک مقدس مقام سمجھا جاتا ہے۔
'سیما حیدر کے ہندو مذہب اختیار کرنے سے عام ہندوؤں کا کوئی تعلق نہیں'
واقعے پر ہندو برادری نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان ہندو پنچایت کے جنرل سیکرٹری روی کمار ڈاوانی نے اس طرح کی دھمکیوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ دھکمیاں تو آن لائن دستیاب ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ سیما حیدر کا مسلم سے ہندو مذہب اختیار کرنے کے عمل سے عام ہندوؤں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بالغ اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے اس میں کسی کمیونٹی کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔
اسی طرح اگر کل کوئی ہندو، مسلمان ہو جائے یا وہ کوئی اور مذہب اختیار کرلے تو اس کو ایسے نہ سمجھا جائے کہ اسے ایسا کرنے میں جبر کیا گیا تاوقتیکہ وہ خود کوئی ایسی شکایت نہ کرے۔
اس سے قبل انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے اتوار کے روز اپنے ایک بیان میں ان خبروں پر تشویش کا اظہار کیا تھا جس کے مطابق 30 سے زائد ہندو کمیونٹی کے افراد ڈاکوؤں کے نرغے میں ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ سیما حیدر سے متعلق پاکستان کے تحقیقاتی اداروں کی تیار کردہ ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیما حیدر کے پاکستان سے نیپال جانے کا معاملہ اب کی تحیققات کے مطابق صرف بھارتی شہری سے تعلقات ہی دکھائی دیتا ہے۔
تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق سیما حیدر کا تعلق رند قبیلے سے ہے اور انہوں نے 15 فروری 2014 کو جیکب آباد میں غلام حیدر جاکھرانی سے کورٹ میریج کی تھی۔ عدالت میں دیے گئے بیان میں سیما نے اپنی عمر19 سال بتائی تھی۔ سیما کے والد غلام رضا رکشہ ڈرائیور ہیں جب کہ بھائی سرکاری ملازم اور اس کے علاوہ دو بہنیں بھی ہیں۔
سیما کے ٹریول ریکارڈ کے مطابق انہوں نے پہلا بین الاقوامی سفر رواں برس 10 مارچ کو کراچی سے شارجہ کا کیا تھا اور وہ 18 مارچ کو واپس پاکستان آگئی تھیں۔ اس کے بعد سیما نے اپنا دوسرا بین الاقوامی سفر اپنے چاروں بچوں کے ہمراہ 10 مئی کو کراچی سے دبئی اور پھر وہاں سے نیپال کا کیا تھا۔ جہاں سے وہ بھارت میں داخل ہوئی تھیں۔
کیا ہندو مذہب کے ماننے والے سندھ سے منتقل ہو رہے ہیں؟
روی ڈاوانی نے بھی انسانی حقوق کمیشن کے بیان سے اتفاق کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ شمالی سندھ کے لوگ اور خاص طور پر وہاں رہنے والے ہندو، ڈاکوؤں کا نشانہ بن چکے ہیں اور انہیں تقریباً روزانہ کی بنیاد پر تاوان کے لیے اغوا کیا جا رہا ہے۔
اُن کے بقول ان میں تاجر، عام افراد اور حتیٰ کہ بچے بھی شامل ہیں۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کشمور، کندھ کوٹ، جیکب آباد، شکار پور اور گھوٹکی وغیرہ کے علاقوں سے بہت سے ہندو خاندان بھارت ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور بہت سے دیگر خاندان سندھ سے ہجرت کرنے کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔
اُن کے بقول ان علاقوں میں انہیں جبری تبدیلیؐ مذہب، اغوا اور بھتہ خوری کا بھی سامنا ہے اور زیادہ تر واقعات میں ملزمان کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔
روی ڈوانی کا کہنا ہے کہ کئی ایسے واقعات میں لوگ تاوان دے کر اپنی جان بچا پائے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد اب بھی ڈاکوؤں کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنی کمیونٹی کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے آباؤ اجداد صدیوں سے یہاں اسی دھرتی پر رہتے آئے ہیں۔ لیکن دھمکیوں اور پھر جبری تبدیلیؐ مذہب کی شکایت نے وہاں رہنے والوں کو کافی خوف و ہراس میں مبتلا کر رکھا ہے اور اس لیے وہ یہاں عدم تحفظ کا شکار نظر آتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
'چند ڈاکو ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کر سکتے'
دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی برائے انسانی حقوق ویر جی کوہلی نے بڑے پیمانے پر ہندوؤں کی نقل مکانی کی ایسی خبروں کی نفی کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چند ڈاکو ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کرسکتے، یہاں رہنے والے ہر مذہب کے ماننے والوں کی حفاظت ریاست کے ذمے ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت بلا امتیاز ہندوؤں سمیت تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ہر ممکن تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہندو مذہب کے ماننے والے اس دھرتی کے اصل باشندے ہیں اور انہیں کوئی یہاں سے نکلنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سندھ حکومت نے ڈاکوؤں کی طرف سے ہندوؤں کو دی جانے والی دھمکیوں کا نوٹس لیا ہے اور ہندوؤں کی عبادت گاہوں کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
لیکن ویر جی کوہلی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کوئی خاندان پاکستان سے دیگر ممالک شفٹ ہو رہے ہیں تو کسی کو زبردستی روکا نہیں جا سکتا۔
ویر جی کوہلی کے خیال میں ڈاکو کسی خاص مذہب سے وابستہ افراد کو اغوا نہیں کرتے بلکہ ان کا مقصد تاوان وصول کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ ایسے افراد کی تلاش میں ہوتے ہیں جو زیادہ امیر ہوں۔
دوسری جانب سندھ پولیس نے کشمور اور گھوٹکی کے اضلاع میں واقع مختلف مندروں اور ہندوؤں کے مقدس درباروں کی حفاظت کے لیے صوبے بھر سے 300 مزید پولیس اہلکار آئندہ دو ماہ کے لیے تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کا تعلق ہندو مذہب سے ہے۔ یہ اہلکار سندھ ریزرو پولیس اور ضلعی فورس کے ساتھ مل کر فرائض انجام دیں گے۔
'امن و امان کے مسئلے کو جان بوجھ کر مذہبی مسئلے میں تبدیل کیا گیا ہے'
ایک اور رکن قومی اسمبلی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما کھیل داس کوہستانی نے گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ سے ملاقات کی اور ہندوؤں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کھیل داس کوہستانی کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزیر داخلہ کو بتایا کہ سندھ کے کئی اضلاع میں امن و امان کی حالت کافی خراب ہے جس پر ہندو کمیونٹی میں کافی خوف بھی پایا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وزارتِ داخلہ کے حکام کے مطابق امن و امان صوبائی مسئلہ ہے اور اس مسئلے میں کسی بھی قسم کی مدد کے لیے سندھ حکومت نے اب تک وفاقی حکومت کو کوئی بھی مدد کی درخواست نہیں کی ہے۔
تاہم کھیل داس کوہستانی کے مطابق اس مسئلے کے حل کے لیے اب عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ لیکن انہوں نے بھی ڈاکوؤں کے پاس ہندو مذہب کے ماننے والوں کی بڑی تعداد میں مغوی ہونے کی خبروں کو غلط قرار دیتے ہوئے اس کی تردید کی ہے۔