|
سرینگر -- بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کی جانب سے منشیات کے خلاف کریک ڈاؤن کے باوجود علاقے میں نشے کے عادی افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
بالخصوص نوجوانوں میں منشیات کی لت عام ہو رہی ہے جس سے ان کے والدین اور دیگر عزیر و اقارب پریشان ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ صورتِ حال ان کے لیے بھی گہری تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے اعلان کیا ہے کہ منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کو روکنا ان کی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد دارالحکومت سرینگر میں سول سوسائٹی کے ارکان کے ساتھ اپنے پہلے اجلاس کے دوران انہوں نے کہا کہ "میں اس سے پہلے جب وزیرِ اعلیٰ تھا تو 2012 میں میں نے اپنی ایک تقریر میں نوجوانوں میں نشے کے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔"
اُن کا کہنا تھا کہ تب وہ صرف کوڈین اور چند دوسری گولیوں کا استعمال کرتے تھے اور یہ معاملہ اتنا خراب نہیں تھا۔ لیکن اب صورتِ حال بدل گئی ہے۔
عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ منشیات ہماری نوجوان نسل کو نگل رہی ہیں۔
انہوں نے مذہبی قیادت اور سول سوسائٹی کے ارکان سے اس وبا کے خلاف حکومت کی طرف سے شروع کی گئی مہم کا حصہ بننے کی اپیل کی۔
بھارت کی وزارتِ سماجی انصاف و تفویضِ اختیارات نے مارچ 2023 میں ملک کی پارلیمان کو مطلع کیا تھا کہ جموں و کشمیر میں منشیات کے استعمال سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد تقریباً 10 لاکھ ہے جو علاقے کی کل آبادی کا آٹھ فی صد ہے۔
بھارتی کشمیر میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد
منشیات اور جرائم کی روک تھام سے متعلق اقوامِ متحدہ کے دفتر کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 60 ہزار ہے۔ منشیات کے استعمال میں گزشتہ تین برس کے دوراں 1500 فی صد اضافہ ہوا ہے جسے ماہرین تشویش ناک قرار دے رہے ہیں۔
حکومتی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں نے منشیات کی غیر قانونی تجارت کرنے والوں کے خلاف ایک سخت گیر مہم شروع کر رکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مہم کے تحت پچھلے چند ماہ کے دوراں درجنوں منشیات فروشوں کی اربوں روپے مالیت کی املاک ضبط کی گئیں جن میں ان کے وہ رہائشی مکان بھی شامل ہیں جو اس ناجائز کاروبار سے حاصل ہونے والی رقوم سے تعمیر کیے گیے تھے۔
یہ کارروائی نارکوٹک ڈرگز اینڈ سائیکو ٹراپک سبسٹنسز ایکٹ مجریہ 1985کے تحت عمل میں لائی گئی جب کہ اس طرح کی سرگرمی کے انسداد سے متعلق قانون پر عمل درآمد کے دوران گزشتہ دو برس کے دوراں تقریباً 600 افراد کو جیل بھیج دیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
عہدے داروں کے مطابق جموں کشمیر کے اپنے سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ یا پی ایس اے کے تحت بھی درجنوں منشیات فروشوں اور اسمگلروں کو نظر بند کر دیا گیا ہے۔
جموں و کشمیر میں 1978 سے نافذ پی ایس اے کے تحت کسی بھی شخص کو اُس پر عدالت میں مقدمہ چلائے بغیر تین ماہ سے دو سال تک قید کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان سخت گیر قوانین کا استعمال منشیات کی فراہمی کی لڑی کو توڑنے، دیگر متعلقہ جرائم کو روکنے اور ان کا ارتکاب کرنے والے گروہوں میں شامل افراد کو باز رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
اُن کے بقول اس طرح کے معاملات سے نمٹنے کے لیے جموں و کشمیر کے انٹی نارکوٹک ونگ نے جموں اور سرینگر میں ایک ایک خصوصی پولیس اسٹیشن قائم کیے ہیں۔
حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں نے جموں و کشمیر میں جنوری 2023 اور جون 2024 کے درمیان 33ہزار 671 کلو گرام منشیات اور ایک لاکھ 951کلو گرام نشہ دلانے والی ادویات ضبط کر کے ضائع کر دی تھیں۔
اس عرصے کے دوراں ان اداروں نے تین ہزار 190 معاملات درج کیے تھے اور 4ہزار5سو36ملوث افراد کو حراست میں لیا تھا۔پولیس نے گزشتہ برس صرف سرینگر میں نارکوٹک ڈرگس اینڈ سائیکو ٹراپک سبسٹنسز ایکٹ مجریہ 1985کے تحت 94معاملات درج کرکے 156افراد کو حراست میں لیا تھا اور مزید 26افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گیے۔
SEE ALSO:
بھارتی کشمیر؛ اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی کہانی بھارتی کشمیر: روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے بجلی، پانی بند کرنے پر تنازعایک اعلیٰ پولیس عہدیدار امتیاز حسین نے کہا کہ یہ اعدادو شمار صورتِ حال کی سنجیدگی ظاہر کرتے ہیں۔
بھارتی حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ اسمگلر متنازع کشمیر کو تقسیم کرنے والی حد بندی لائن اور جموں کے علاقے میں واقع 198 کلو میٹر ورکنگ باؤنڈری کے ذریعے افیون اور دیگر منشیات بھارت پہنچاتے ہیں۔
ان کے بقول حالیہ برسوں میں اس طرح کی غیر قانونی سرگرمی سب سے زیادہ جموں و کشمیر میں دیکھی گئی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ منشیات کو جموں و کشمیر میں پہنچانے کے لیے ڈرونز کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
پولیس عہدے دار امتیاز حسین نے سرینگر میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ رواں ہفتے (8جنوری) کو شہر کے قمر واری علاقے میں پولیس نے معمول کی تحقیقات کے دوراں سرحدی ضلع کپواڑہ سے آئے ہوئے دو افراد اوران کے ڈرائیور سے آٹھ کلو گرام ہیروئین ضبط کی تھی۔
اس معاملے کی تحقیقات کے دوراں پتا چلا کہ یہ کھیپ ایل او سی کی دوسری جانب سے بھیجی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جہاں ہم دہشت گردی کا بڑی حد تک قلع قمع کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں وہیں منشیات کی وبا ہمارے لیے انتہائی تشویش کا موجب بنی ہوئی ہے۔
امتیاز حسین نے بتایا کہ پولیس نے ایک طرف منشیات کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف ایک سخت گیر مہم شروع کر رکھی ہے تو دوسری جانب یہ عوامی رابطے کی مہم میں تیزی لائی ہے تاکہ ملوث افراد کا پتا لگانے اور جن جگہوں جہاں پر یہ منشیات بیچی جاتی ہیں کی نشاندہی کرانے میں ان کی مدد حاصل کی جا سکے۔
بھارتی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر اور گولڈن کریسنٹ کے درمیان چوں کہ جغرافیائی قربت ہے اس لیے افغانستان سے پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر کے راستے جموں و کشمیر اور بھارتی پنجاب میں افیون اور دوسری منشیات کی غیر قانونی نقل و حمل کی جاتی ہے جس نے ان دونوں ریاستوں کو خاص اور بھارت کو ایک عمومی پُرخطر اور غیر یقینی صورتِ حال میں مبتلا کر رکھا ہے۔ البتہ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے کہ اس کا اس طرح کی کسی سرگرمی میں کوئی کردار ہے۔
بھارتی عہدیدار یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت کی سرحدیں چین کے ساتھ بھی ملتی ہیں، جو دوا سازی کے شعبے میں ایک سرکردہ ملک ہے اور اس نے بھارت سمیت بِمسٹیک خطے میں دوا سازی اور اسمگلنگ کو بہت ہی پُرخطر بنادیا ہے۔ بِمسٹیک ممالک میں بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا، بھوٹان، میانمار اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔
افیون اور چرس کی کاشت خود بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی کی جاتی ہے بلکہ حالیہ برسوں میں بالخصوص وادیٔ کشمیر کے جنوبی علاقوں میں اس طرح کی سرگرمی میں اضافہ دیکھا گیا۔
پولیس، ایکسائز اور انسدادِ منشیات محکموں نے افیون اور چرس کی کاشت کے خلاف ایک مہم شروع کر رکھی ہے اور آئے دن اس غیر قانونی زمینداری اور منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جا رہا ہے یہ سلسلہ رُکا نہیں ہے۔
'بے روزگاری اور دیگر محرومیوں سے نوجوانوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے'
ماہرینِ نفسیات اور تجزیہ کار بھارتی کشمیر میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ علاقے میں کئی دہائیوں سے جاری تشدد اور بدامنی اور ان کے نتیجے میں نوجوانوں میں بے روزگاری اور دیگر محرومیوں اور مایوسی بتا رہے ہیں۔
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر عبدالوحید خان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس منشیات کے شکار جن مریضوں کو علاج کے لیے لایا جاتا ہے ان میں سے اکثر ذہنی دباؤ، مایوسی، ناامیدی اور افسردگی کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔
ڈاکٹر خان نے کہا کہ انہوں نے کئی ایسے مریضوں کا بھی علاج کیا ہے جنہوں نے انہیں بتایا کہ انہوں نے منشیات کا شوقیہ استعمال کرنا شروع کردیا تھا لیکن بعد میں انہیں ان کی لت پڑ گئی۔
سرکردہ مذہبی اور سیاسی رہنما میر واعظ محمد عمر فاروق نے اپنے اس خدشے کا اعادہ کیا کہ لگتا ہے کہ کچھ قوتیں ایک گھناؤنے منصوبے کے تحت جموں و کشمیر کی نئی نسل کو منشیات کا عادی بنا کر پوری طرح تباہ اور برباد کرنے پر تلی ہیں۔ تاہم انہوں نے اس وبا کو روکنے کے لیے مقامی پولیس کی طرف سے کی جا رہی کوششوں کو بھی سراہا ہے۔
انہوں نے حال ہی میں سرینگر میں منعقدہ ایک تقریب سے اپنے خطاب کے دوراں کہا تھا کہ یہ اطلاع انتہائی تشویشناک ہے کہ جموں و کشمیر میں 15 لاکھ کے قریب افراد منشیات کا استعمال کر رہے ہیں۔
جموں و کشمیر کے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر ناصر اسلم وانی نے بتایا کہ حکومت منشیات کے بحران سے نمٹنے کے لیے عوام کے سامنے عنقریب ایک ضابطہ عمل اور اس سلسلے میں اس کی طرف سے کی جا رہی کارروائیوں کی ایک رپورٹ رکھے گی۔