بھارت میں افغانستان سے متعلق ہونے والے مختلف ملکوں کے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ افغان سرزمین دہشت گردی کی مالی اعانت، تربیت اور حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔
منگل کو افغانستان سے متعلق بھارت اور وسطی ایشیائی ملکوں پر مشتمل جوائنٹ ورکنگ گروپ کا پہلا اجلاس نئی دہلی میں ہوا۔ بھارت کے علاوہ اجلاس میں قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے متعلقہ حکام شریک ہوئے۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے کے مطابق شرکا نے علاقائی دہشت گردی، انتہا پسندی اور منشیات کی تجارت کے خطرے پر گفتگو کی اور ان خطروں سے نمٹنے کے لیے مربوط کوششوں کے امکانات کا بھی جائزہ لیا۔
بیان کے مطابق اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1267 کے ذریعے دہشت گرد قرار دیے گئے افراد سمیت کسی بھی دہشت گرد گروپ یا تنظیم کو افغانستان میں پناہ نہ دی جائے۔
شرکائے اجلاس نے افغانستان میں ایک ایسے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل کی اہمیت پر زور دیا جس میں تمام گروپوں کی حقیقی شمولیت اور نمائندگی ہو اور جو تمام افغان عوام کے حقوق کا احترام کرے اور خواتین، لڑکیوں اور اقلیتی برادریوں کے مساوی حقوق اور تعلیم تک رسائی کو یقینی بنائے۔
مشترکہ بیان کے مطابق مندوبین نے جہاں افغانستان کی خودمختاری، اقتدار اعلیٰ، علاقائی سالمیت کے احترام اور اس کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر زور دیا وہیں ایک پرامن، محفوظ اور مستحکم افغانستان کی حمایت کا اعادہ بھی کیا۔
اجلاس میں اقوام متحدہ کے عالمی غذائی پروگرام (یو این ڈبلیو ایف پی) اور منشیات اور جرائم کے انسداد سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ادارے (یو این او ڈی جی) کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
یو این ڈبلیو ایف پی کے نمائندے نے اجلاس کے شرکا کو بھارت اور اقوامِ متحدہ کے اشتراک سے افغان عوام کو فراہم کی جانے والی غذائی امداد کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔
منشیات اور جرائم کے انسداد سے متعلق ادارے نے بھارت کے اشتراک سے منشیات اور جرائم کے خلاف چلائی جانے والی مہم کی تفصیلات بتائیں اور ورکنگ گروپ کے اس پہلے اجلاس کے انعقاد کے لیے بھار ت کا شکریہ ادا کیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال جنوری میں بھار ت اور پانچوں وسطی ایشیائی ممالک کی ایک ورچوئل سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں افغانستان کے سلسلے میں ایک ورکنگ گروپ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
تجزیہ کاروں نے ورکنگ گروپ کے اجلاس کو انتہائی اہم قرار دیا اور کہا کہ جہاں افغانستان میں بھارت کے مفادات ہیں وہیں وسطی ایشیائی ملکوں کے بھی ہیں۔ بھارت بھی اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے اور وسطی ایشیائی ممالک بھی۔
وسطی ایشیائی امور کے ماہر اور تجزیہ کار ڈاکٹر محمد ارشد کا کہنا ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان کے درمیان بہت قریبی روابط رہے ہیں اور افغانستان میں پیش آنے والے سیاسی و اقتصادی حالات کا اثر ان ملکوں پر بھی پڑتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ایک صدی پیشتر اور اس سے بھی پہلے افغانستان کو وسطی ایشیائی خطے کے حصے کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور بہت سی جگہوں پر اب بھی اسے سینٹرل ایشیا کی تاریخ کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ لہٰذا افغانستان میں اس خطے کی دلچسپی فطری ہے۔
ان کے مطابق سینٹرل ایشیائی ملکوں کے اپنے مفادات کے لیے بھی ضروری ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ اسی طرح بھارت کے لیے بھی ضروری ہے کہ جہاں افغانستان سے اس کے اچھے رشتے ہوں وہیں سینٹرل ایشیائی ملکوں کے بھی افغانستان سے اچھے رشتے ہوں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے اور اسے توانائی بالخصوص گیس کی شدید ضرورت ہے۔ بھارت اگر چاہ بہار کے راستے یا بحری راستے سے توانائی حاصل کرتا ہے تو اس کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے۔ اگر افغانستان میں امن ہو جائے اور پاکستان اور بھارت کے رشتے بھی اچھے ہو جائیں تو بھارت کو سستی توانائی حاصل ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ نے رواں سال کے فروری میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ آئی ایس آئی ایل (خراسان) نے افغانستان میں بھارت، ایران اور چین کے سفارت خانوں پر حملوں کی دھمکی دی ہے۔ اس کی سرگرمیاں وسطی اور جنوبی ایشیا کے لیے خطرہ ہیں۔ وہ حملوں کے ذریعے افغانستان اور اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کے رشتوں کو بگاڑنا چاہتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے کہ افغانستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔ اسی لیے وہ ایک پرامن، اجتماعی اور مستحکم حکومت کے قیام کی وکالت کرتا رہا ہے۔
سینئر تجزیہ کار اجے کمار کہتے ہیں کہ جب تک دہشت گردانہ وارداتیں ہوتی رہیں گی افغانستان مستحکم نہیں ہو سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ اور تاریخی رشتے رہے ہیں۔ اسی لیے بھارت نے افغان عوام کی فلاح و بہبود کے پروگراموں اور منصوبوں پر تین ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے۔
ان کے مطابق اشرف غنی حکومت کے دوران ان منصوبوں پر تیزی سے کام ہو رہا تھا لیکن طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بہت سے منصوبے تعطل کے شکار ہو گئے۔ بھارت ان منصوبوں کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔ موجودہ طالبان حکومت کے سینئر اہلکار بھی چاہتے ہیں کہ بھارت ان منصوبوں کو مکمل کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان منصوبوں پر اسی وقت کام ہو سکتا ہے جب وہاں دہشت گردی کی وارداتیں نہ ہوں۔ لیکن یہ وارداتیں اب بھی ہو رہی ہیں۔ بھارت نے اپنے مفادات کے پیش نظر طالبان کی موجودہ حکومت کے بارے میں اپنی پالیسیوں میں لچک پیدا کی ہے اور طالبان کا رویہ بھی بدلا ہے۔ وہ بھی بھارت کے ساتھ اچھے رشتے چاہتے ہیں۔
طلوع نیوز کے مطابق گزشتہ سال دسمبر میں طالبان حکومت کی شہری ترقیات اور ہاؤسنگ کی وزارت نے کہا تھا کہ افغانستان میں بھارت کے چارج ڈی افیئرز بھرت کمار کے مطابق بھارت افغانستان سے اپنے رشتے بہتر کرنا اور تعطل کے شکار منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ نئی دہلی کے شروع کیے گئے 20 منصوبے ٹھپ پڑے ہوئے ہیں۔
مبصرین کے مطابق ورکنگ گروپ کے اجلاس میں بھار ت کی جانب سے افغانستان کے لیے مزید 20 ہزار میٹرک ٹن گندم سپلائی کرنے کے اعلان کا مقصد ایک تو انسانی بنیادوں پر افغان عوام کی مدد کرنا ہے اور دوسرے یہ قدم اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ بھارت افغان عوام سے اپنے تعلقات کو بحال رکھنا چاہتا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت نے چاہ بہار کے راستے افغانستان کو گندم بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ قبل ازیں اس نے 50 ہزار میٹرک ٹن گندم بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان کی جانب سے راہداری کی سہولت فراہم کرنے کے بعد 40 ہزار میٹرک ٹن گندم کی سپلائی ہوئی تھی۔