|
نئی دہلی _ بھارت بڑے پیمانے پر سعودی عرب کی سرمایہ کاری کا خواہش مند ہے اور سعودی عرب بھی مختلف شعبوں میں سرکاری کاری کے لیے تیار ہے۔
دونوں ملکوں نے ریفائننگ، پیٹروکیمیکل پلانٹس، جدید اور قابلِ تجدید توانائی، ٹیلی کام اور بجلی سمیت متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے سلسلے میں وسیع تر تبادلہ خیال کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ بھارت کی معیشت فروغ پذیر ہے لیکن براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بہت کم ہو رہی ہے۔ لہٰذا حکومت چاہتی ہے کہ سعودی عرب نے ملک میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا جو وعدہ کیا تھا اس کام کو آگے بڑھائے۔
سعودی ولی عہد اور وزیرِ اعظم محمد بن سلمان نے گزشتہ برس دورۂ بھارت کے موقع پر وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے دوران بھارت میں 100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا عزم کیا تھا۔
اس سلسلے میں دونوں ملکوں کی اعلیٰ سطح کی ٹاسک فورس کا پہلا اجلاس اختتامِ ہفتہ ہوا۔ ورچوئل اجلاس کی صدارت وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دفتر میں پرنسپل سیکریٹری پی کے مشرا اور سعودی عرب کے وزیرِ توانائی شہزادہ عبد العزیز بن سلمان بن عبد العزیز السعود نے کی۔
بھارت نے سعودی عرب کو ملک میں پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) قائم کرنے اور دفتر کھولنے کے لیے مدعو کیا ہے جب کہ ٹاسک فورس کے اگلے اجلاس کے لیے سعودی وزیرِ توانائی کو نئی دہلی کے دورے کی دعوت بھی دی ہے۔
بھارتی پیٹرولیم سیکریٹری کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطح اور بااختیار وفد تیل اور گیس کے شعبوں میں باہمی مفاد کی سرمایہ کاری پر مزید تبادلۂ خیال کے لیے سعودی عرب کا دورہ بھی کرے گا۔
'مقامی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے'
معروف ماہر معاشیات پروفیسر امیر اللہ خان کہتے ہیں کہ بھارت میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) تقریباً صفر پر پہنچ گئی ہے اور اس وقت بمشکل 65-70 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہے۔
ان کے بقول بیرونی سرمایہ کاری میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران کمی کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، کرونا وبا کے بعد اس میں مزید تیزی آئی ہے جس کی ایک وجہ سیاسی ماحول میں تبدیلی بھی ہے۔
ان کے بقول یوکرین جنگ اور یورپین بازاروں میں مندی کی وجہ سے بھی بیرونی سرمایہ کاری کم آ رہی ہے۔ لہٰذا بھارت ان ملکوں کی تلاش میں ہے جہاں سے ایف ڈی آئی آ سکے۔
امیر اللہ خان کے مطابق بھارت خام تیل عراق سے درآمد کرتا تھا لیکن حالات کی خرابی کی وجہ سے ایران سے تیل درآمد کیا جانے لگا اور اب بھارت کی نظر سعودی عرب پر لگی ہوئی ہے۔
بعض اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے اقتصادی تعلقات کے فروغ کے لیے ملک کے دو بڑے سرمایہ دار مکیش امبانی اور گوتم اڈانی حکومت پر زور دے رہے ہیں۔
SEE ALSO: بھارت: بیٹرییز میں بجلی ذخیرہ کرنے کے منصوبوں میں تیزیپروفیسر امیر اللہ خان کہتے ہیں مکیش امبانی پیٹرو کیمیکل کے شعبے سے وابستہ ہیں جب کہ اڈانی شپنگ کے شعبے میں۔ دونوں چاہتے ہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ اقتصادی رشتے کو فروغ دیا جائے۔ سعودی عرب سے خام تیل خریدا جائے اور متحدہ عرب امارات کی طرح اسے بھی پیٹرول آئل اور لبری کینٹ فروخت کیا جائے۔
محمد بن سلمان کے دورۂ نئی دہلی کے دوران سعودی عرب نے بھارت میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے طویل مدتی منصوبے کو تیز کرنے کے اقدامات کا خاکہ پیش کیا تھا۔ اس میں سے 50 ارب ڈالر ویسٹ کوسٹ ریفائنری کے لیے مختص کیے گئے تھے۔
اُس وقت وزیرِ اعظم مودی نے آبی راہداریوں، بندرگاہوں، ریلویز، ہائی ویز بنیادی ڈھانچے، توانائی، ہائیڈروجن اور گیس گرڈ جیسے شعبوں میں سعودی سرمایہ کاری کی تجویز پیش کی تھی۔
واضح رہے کہ بھارت میں سعودی آئل کمپنی آرامکو، ابو ظہبی نیشنل آئل کمپنی، سابک، الفنار انرجی اور زامل ایئر کنڈیشنرز انڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ جیسی کمپنیاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ جب کہ بھارت کی ویپرو، مناہل انٹرنیشنل کمپنی اور لارسن اینڈ ٹوبرو جیسی کمپنیاں سعودی عرب میں بزنس کر رہی ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے 2023 میں 68 ملین ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کی تھی۔
SEE ALSO: بھارت کے دفاعی بجٹ میں اضافہ، 'اقتصادی روڈ میپ' جاریریاض میں واقع بھارتی سفارت خانے کی ویب سائٹ کے مطابق 2016 سے 2019 کے درمیان سعودی عرب سے بھارت کی درآمدات 42.3 ارب ڈالر اور برآمدات 10.72 ارب ڈالر تک تھیں۔
سال 2022-2023 میں سعودی عرب کے ساتھ بھارت کی تجارت بھارت کی مجموعی تجارت کا 4.53 فی صد تھی۔
ویب سائٹ کے مطابق حالیہ برسوں میں سعودی عرب میں بھارت کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا اور اس وقت وہ دو ارب ڈالر ہے۔ یہ سرمایہ کاری ایل اینڈ ٹی، ٹاٹا، ویپرو، ٹی سی ایس، ٹی سی آئی ایل، ائیر انڈیا، گو ایئر، انڈیگو اور اسپائس جیٹ وغیرہ کر رہی ہیں۔
'دہلی کے 51 میں سے ایک ارب پتی فرد کی بھی ملک میں سرمایہ کاری نہیں'
ماہر اقتصادیات شرد راگھون نے نیوز ویب سائٹ ‘دی وائر‘ کے لیے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ 2012 سے ہی مقامی سرمایہ کاری کا حجم کم ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ معیشت کو جس طرح مینج کیا جا رہا ہے وہ ٹھیک نہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ سرمایہ کاروں میں اعتماد کی کمی ہے۔
پروفیسر امیراللہ خان کے مطابق 2014 کے بعد سے ملک میں جو ماحول ہے اس کے پیشِ نظر کاروباری طبقہ ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے باہر کر رہا ہے۔ ان کے بقول اس وقت صرف دہلی میں 51 ارب پتی افراد ہیں لیکن ان میں سے ایک بھی اندرونِ ملک سرمایہ کاری نہیں کر رہا ہے۔
البتہ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ آئندہ تین برس میں بھارت پانچ کھرب ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا اور 2030 تک جی ڈی پی سات کھرب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
SEE ALSO: تجارتی اداروں کی شکایات؛ بھارتی حکومت چینی تیکنیکی ماہرین کے لیے ویزا قوانین میں نرمی پر تیاروزیرِ اعظم مودی کی حکومت یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ اس نے ملک میں کاروبار کرنے کے مواقع میں اضافہ کیا ہے، حالات کو سازگار بنایا ہے اور غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری کے بہتر مواقع پیدا کیے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت اور چین میں سرحدی کشیدگی کے باوجود دونوں ملکوں میں تجارت بڑھتی جا رہی ہے لیکن اس کا توازن چین کی طرف ہے۔ بھارت اس عدم توازن کو کم کرنا چاہتا ہے۔
پروفیسر امیر اللہ خان کے مطابق بھارت چین کا توڑ چاہتا ہے اور وزیرِ اعظم مودی کی حکومت کے خیال میں سعودی عرب اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کے بقول، بھارت میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری میں دونوں ملکوں کی دلچسپی ہے اور دونوں کی ضرورت بھی ہے۔
ان کے خیال میں ملازمتوں اور روزگار کی کمی نے بھی بھارت کو مجبور کیا ہے۔ بھارت کی جتنی بڑی معیشت ہے اور وہ جس طرح فروغ پا رہی ہے اس کے پیش نظر روزگار صرف براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سے ہی آسکتا ہے۔