بھارتی سپریم کورٹ نے ایک انتہائی اہم فیصلے میں ایودھیا میں واقع بابری مسجد کی متنازعہ اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگادی ہے اور وہاں صورتِ حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس آفتاب عالم اور جسٹس آر ایم لودھا پر مشتمل بینچ نے 30ستمبر 2010ء کو سنائے گئے فیصلے کو حیران کُن بتاتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت متنازعہ اراضی کو تین حصوں میں کیسے تقسیم کرسکتی ہے جب کہ کسی بھی فریق نے ایسا نہیں چاہا تھا۔ یہ ایک عجیب و غریب فیصلہ ہے اور اِس نے اپیلوں کا انبار لگا دیا ہے۔اِس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کی متنازعہ 2.77ایکڑ اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرکے دو حصہ ہندوؤں کو اور ایک حصہ مسلمانوں کو دینے کا فیصلہ سنایا تھا جِس کے خلاف تقریباً تمام فریقوں اور دوسرے مذہبی گروپوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔تمام فریقوں نے اِس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
سُنی سینٹرل وقف بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے فیصلے کے بارے میں بتایا کہ عدالت نے ’اسٹیٹس کُئو‘ جاری رکھنے کے لیے کہا، جب کہ ہندو فریق کے وکیل روی شنکر پرساد نے کہا کہ عدالت نے پوجا پاٹھ کی اجازت دی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ متنازعہ اراضی پر جہاں عارضی مندر قائم ہے وہاں پوجا پاٹھ جاری رہے گی لیکن اُس سے متصل اِس 66ایکڑ اراضی پر جسے مرکزی حکومت نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے کسی مذہبی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے معاملے میں سپریم کورٹ میں یہ پہلی سماعت تھی۔