|
بھارت نے چین کی جانب سے اروناچل پردیش کے 30 مقامات کے نام تبدیل کرنے کو سختی سے مسترد کر دیا اور اس دعوے کا اعادہ کیا کہ اروناچل پردیش اس کا لازمی حصہ ہے۔
بیجنگ کا دعویٰ ہے کہ اروناچل پردیش جسے وہ ’زنگنان‘ کہتا ہے، جنوبی تبت کا حصہ ہے۔ بھارت اس کے اس دعوے کو مسترد کرتا ہے۔
چین نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ اس نے ناموں سے متعلق ’اسٹیٹ کونسل‘ کے نظام کے تحت جنوبی تبت کے اس علاقے کے 30 مقامات کے نام تبدیل کیے ہیں۔ اس سے قبل بیجنگ تین مرتبہ اروناچل پردیش کے مقامات کے نام تبدیل کر چکا ہے۔
چین کے سرکاری اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ کے مطابق چینی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان جاری کر کے ناموں کی تبدیلی کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ چین کی شہری امور کی وزارت نے 2017 میں چھ، 2021 میں 15 اور 2023 میں 11 مقامات کے نام تبدیل کیے تھے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے منگل کو کہا کہ ناموں کی تبدیلی سے یہ حقیقت بدل نہیں جائے گی کہ اروناچل پردیش بھارت کا حصہ تھا ہے اور رہے گا۔
قبل ازیں وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ ناموں کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ساؤتھ گجرات چیمبر آف کامرس احمد آباد میں گفتگو کرتے ہوئے ہوئے انھوں نے چین کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں آج آپ کے مکان کا نام تبدیل کر دوں تو کیا وہ میرا ہو جائے گا۔
ان کے بقول لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر بھارت کی افواج تعینات ہیں۔ اروناچل پردیش ہمیشہ بھارت کا حصہ تھا اور رہے گا۔
کمزور ردِعمل
بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس نے ناموں کی تبدیلی پر بھارت کے ردِعمل کو کمزور اور نرم قرار دیا ہے۔ پارٹی ترجمان منیش تیواری نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت کو اس معاملے سے سختی سے نمٹنا چاہیے۔
انھوں نے ایس جے شنکر کے بیان کو بھی کمزور قرار دیا اور کہا کہ 2020 میں چین کی فوج کے بھارت میں گھس آنے اور متعدد مقامات پر قابض ہو جانے کے بعد سے ہی بھارت مسلسل کمزور ردِعمل کا مظاہرہ کرتا آیا ہے۔
امریکہ نے بھی اروناچل پردیش کے مقامات کے نام تبدیل کیے جانے کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک نمائندے نے منگل کو واشنگٹن میں کہا کہ امریکہ ایل اے سی کے پار فوج یا سویلین کی جانب سے دراندازی یا تجاوزات کے ذریعے دعویٰ کرنے کی یکطرفہ کوشش کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔
'چین تبت کے الحاق کو اروناچل تک توسیع دینا چاہتا ہے'
خطے کی سیاست کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار برہما چیلانی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ نئی دہلی کو چاہیے کہ وہ بیجنگ کو یاد دلائے کہ اس نے عالمی قوانین کا مذاق اڑاتے ہوئے تبت پر قبضہ کر رکھا ہے اور اب وہ تبت کے الحاق کو اروناچل پردیش تک توسیع دینا چاہتا ہے۔
ان کے مطابق چین کو بتا دینا چاہیے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس نے تبت پر قبضہ کر رکھا ہے۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ بھارت کو تبت کو چین کا حصہ تسلیم کیے جانے کا فیصلہ واپس لے لینا چاہیے۔
'چین قانونی جنگ لڑ رہا ہے'
بھارت چین امور کے ماہر اور سینئر دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی کا کہنا ہے کہ چین ’قانونی جنگ‘ کے تحت جسے ’لا فیئر‘ کہتے ہیں، ناموں کی تبدیلی کر رہا ہے۔ اروناچل پردیش پر اس کا دعویٰ ہے۔ وہ یہ کام لیگل طریقے سے کر رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ چین ایل اے سی پر بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے اپنا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ وہ آگے کیا کرتا ہے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
خیال رہے کہ ’پیپلز ری پبلک آف چائنا‘ (پی آر سی) کے نظریہ سازوں کے نزدیک ’لا فیئر‘’سیاسی جنگ‘ یعنی ’پولیٹیکل وار فیئر‘ کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ’قانونی جنگ‘ چین کی ’سیاسی جنگ‘ کے نظریے میں شامل ہے۔
SEE ALSO:
آن لائن فراڈ پر مجبور ہونے والے 250 بھارتیوں کی کمبوڈیا سے واپسیدہلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال کی گرفتاری پرامریکہ کے بیان پر بھارت کو سخت اعتراض بھارت کے اہم آبی ذخائرکم ترین سطح پر، کیاآنے والے برسوں میں پانی پرجنگوں کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟سات مراحل اور 44 دن؛ بھارت میں الیکشن اتنے طویل کیوں ہوتے ہیں؟پروین ساہنی حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور سرحدی تنازع کے سلسلے میں جاری بات چیت کے ساتھ سفارتی سطح پر بھی اس معاملے کو اٹھائے اور چین سے پوچھے کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔
انھوں نے اس بیان پر کہ نئی دہلی کا ردِعمل کمزور ہے کہا کہ وہ یہ نہیں کہیں گے کہ بھارت سختی سے بات کرے لیکن اسے سنجیدگی سے اس معاملے کو لینا چاہیے اور چین کے ساتھ سفارتی سطح پر مذاکرات کرنے چاہئیں۔
پروین ساہنی نے امریکہ کے بیان کے تناظر میں کہا کہ وہ خطے کی سیاست کے پیشِ نظر بیانات دے رہا ہے۔ وہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانا اور ’انڈین اوشن ریجن‘ (آئی او آر) میں جہاں تک ممکن ہو بھارت کی حمایت کرنا چاہتا ہے۔
لیکن وہ امریکہ کے بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بیان کا چین پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ چین اب بہت بڑی طاقت بن چکا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ نے حالیہ برسوں میں بھارت کے ساتھ اپنے رشتوں کو کافی مضبوط کیا ہے۔ وہ انڈو پیسفک میں چین کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے بھارت کے ساتھ اطلاعات کی سرگرم شراکت داری نبھا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
'انڈوپیسفک میں چین کی سرگرمیاں امریکہ کے لیے بھی باعث تشویش ہیں'
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ انڈو پیسفک میں چین کی سرگرمی جہاں بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے وہیں امریکہ کے لیے بھی باعثِ تشویش ہے۔ اس لیے وہ چین کو روکنے کے لیے بھارت کے ساتھ سرگرم اشتراک سے کام لے رہا ہے۔
گزشتہ ماہ بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اروناچل پردیش کا دورہ کیا اور وہاں انہوں نے ایک سرنگ کا افتتاح کیا تھا تو چین نے اس پر سخت اعتراض کیا تھا جسے بھارت نے مسترد کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ 2020 میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان خونی ٹکراؤ کے بعد سے جس میں بھارت کے 20 جوان ہلاک ہوئے تھے، دونوں ملکوں میں سرحدی کشیدگی برقرار ہے۔ دونوں کے درمیان کمانڈروں کی سطح پر اب تک باہمی مذاکرات کے 21 ادوار ہو چکے ہیں۔
ایل اے سی پر دونوں ملکوں کی جانب سے 50-50 ہزار فوجی تعینات ہیں۔ بڑی تعداد میں چھوٹے بڑے اسلحے بھی تعینات کیے گئے ہیں۔