امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن ایران سے لے کر وال مارٹ کے اسٹور کھلوانے تک کے موضوعات پر مذاکرات کے لیے بھارت کے دوروزہ دورے پر ہیں ۔ جنوبی ایشیا کے لیے وائس آف امریکہ کے نمائندے کرٹ ایچن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مز کلنٹن کے اس دورے کا پہلے قیام کے لیے دہلی کی بجائے کلکتہ کا چناؤ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن اتوار کو بھارت کی ریاست مغربی بنگال کے دار الحکومت کلکتہ پہنچیں اس پروگرا م کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ریاست پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے قریب واقع ہے جہاں مز کلنٹن نے ہفتے کا دن گزارا تھا۔ لیکن بہت سے مبصرین اسے اس لیے بھی اہمیت دے رہے ہیں کہ مز کلنٹن کے ایجنڈے میں پہلی بڑی ملاقات پیر کےر وز مغربی بنگا ل کی وزیر اعلیٰ ممتا بنیر جی کے ساتھ ہے ۔ بینرجی کی پارٹی بھارت کی حکمران جماعت کانگریس کی ایک کلیدی اتحادی ساتھی ہے اور بھارتی منڈیوں میں تھوک کے کاروبارمیں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دینے کی راہ میں بینیر جی ایک بڑی رکاوٹ رہی ہیں۔
گزشتہ سال مز بینر جی نے حکومت کو اپنا وہ حکم کو واپس لینے پر مجبور کردیاتھا جس سے وال مارٹ جیسی امریکی کمپنیوں کو ملٹی برانڈ پرچون فروخت میں 51 فیصد حصے کی ملکیت کی اجازت ملنے کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔
نئی دہلی کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فائنانس اینڈ پالیسی کے ماہر اقتصادیات بھانومارتھی کہتے ہیں کہ اس اقدام سے قومی حکومت کی سبکی اور ممتا بینر جی کی اہمیت میں اضافہ ہوا تھا۔
ان کا کہناتھا کہ پچھلی بار حکومتی فیصلے کے خلاف انہوں نے بہت زیادہ آواز اٹھائی اور ان کی آواز موجودہ حکومت کے لیے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ وزیر خارجہ کلنٹن کی ممتا بینر جی سے ملاقات اس چیز کا اعتراف ہے کہ حکومتی امور میں ان کی شخصیت ایک موثر کردار رکھتی ہے۔
توقع ہے کہ امریکی وزیر خارجہ دریائے ٹیسٹا کے پانی کی پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے ساتھ شراکت سے متعلق تعطل میں پڑے ہوئے اس معاہدے پر بھی گفتگو کریں گی ، جس کی مز بینر جی اس کی موجودہ شکل کی مخالفت کرچکی ہیں ۔
امریکی وزیر خارجہ بھارتی راہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کےلیے پیر کی رات دارالحکومت نئی دہلی روانہ ہوں گی۔جس میں اگلے ماہ واشنگٹن میں امریکہ اور بھارت کے درمیان طے شدہ ایک اسٹریٹیجک فورم کی بنیادی تیاریوں سے متعلق امور زیر بحث آئیں گے ۔
مز کلنٹن توقع ہے کہ بھارتی حکومت پر زور دیں گی کہ وہ ایرانی تیل پر اپنا انحصار کم کرتے ہوئے دوسرے ممالک سے ایندھن کی خرید کا کا راستہ اختیار کرے۔
امریکہ اور یورپ تہران کے جوہری پروگرام کی حوصلہ شکنی کے لیے، جنہیں وہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا حصہ سمجھتے ہیں، اس کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر چکے ہیں ۔
بھارت ان پابندیوں کی حمایت نہیں کرتا لیکن وہ ایران سے تیل کی اپنی خرید میں خاموشی سے کمی کر رہاہے۔
نئی دہلی کی ملاقاتوں کے ایجنڈے پر2014ء میں افغانستان سے امریکی فوج کے مجوزہ انخلا کے تناظر میں علاقائی استحکام پر بھی گفتگو شامل ہوگی۔