بھارت کے خلائی ادارے نے جمعے کے روز اپنے خلائی جہاز چندریان تھری کی جانب سے بھیجی جانے والی کچھ تصویریں جاری ہیں جو چاند کے مدار میں گردش کے دوران اتاری گئیں تھیں۔ بھارتی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سائنسی تحقیق کے لیے بھیجی جانے والی خصوصی گاڑی 23 اگست کو چاند کی سطح پر اتر سکتی ہے۔
چندریان۔3 چاند کے جنوبی قطبی علاقے میں اتارا جائے گا جسے ایک مشکل مرحلہ تصور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ وہاں کی سطح غیر ہموار ہے جس سے وہاں کسی مشین کا اتارنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل چاند پر جتنی بھی سائنسی مہمات بھیجی گئیں تھیں ان میں سے کوئی بھی مہم جنوبی قطبی علاقے کی گہری کھائیوں کے لیے نہیں تھی۔
جنوبی قطب چاند کا ایک ایسا حصہ ہے جو تاریک اور انتہائی سرد حصہ ہے ۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ وہاں گہری کھائیوں میں پانی برف کی شکل میں موجود ہے۔
اس علاقے میں ابھی تک سائنسی تحقیق کرنے والی کوئی گاڑی نہیں اتاری جا سکی، اور اس خطے کے بارے میں مستند معلومات محدود ہیں۔ اس علاقے میں کھائیاں کچھ اس انداز کی ہیں کہ ان کے اندر سورج کی روشنی نہیں پہنچتی اور وہاں ہمیشہ گہری تاریکی چھائی رہتی ہے۔ دوسرا یہ کہ چاند کے یہ حصے انتہائی سرد ہیں اور وہاں درجہ حرارت منفی 230 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔
2019 میں بھارت نے اپنا خلائی مشن چندریان ۔2 اسی خطے کی تحقیق کے لیے بھیجا تھا، لیکن چاند کی سطح کو چھونے سے چند منٹ قبل چاند گاڑی سے زمینی مرکز کا رابطہ ٹوٹ گیا تھا اور یہ مشن ناکام ہو گیا تھا۔
بھارتی خلائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے چندریان ۔2 کی ناکامیوں کو سامنے رکھتے ہوئے چندریان۔3 کا مشن ڈیزائن کیا ہے اور انہیں پوری توقع ہے کہ یہ مشن اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا۔
چندریان سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب چاند گاڑی ہے۔ یہ گاڑی چاند کی جانب بھیجے جانے والے راکٹ میں رکھی گئی ہے۔ گاڑی کی لمبائی دو میٹر ہے یعنی تقریباً ساڑھے چھ فٹ۔ اسے چاند کے قطبی علاقے کی مخصوص نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ گاڑی وہاں تقریباً دو ہفتے تک فعال رہے گی اور سائنسی ڈیٹا زمینی مرکز کو بھیجے گی۔
SEE ALSO: بھارت کا خلائی مشن چاند کے مدار میں داخل
دلچسپ بات یہ ہے کہ جنوبی قطبی علاقے میں ہی روسی سائنس دان اپنی خلائی گاڑی لونا۔25 اتارنے کی تیاری کر رہے ہیں اور لونا۔25 کی لینڈنگ چندریان۔3 سے دو روز پہلے 21 اگست کو ہو رہی ہے۔
بھارت کے چندریان۔3 کی لانچنگ 14 جولائی کو ہوئی تھی۔ چاند کے مدار میں داخل ہونے سے پہلے چندریان۔3 ، کئی روز تک زمین کے مدار میں گردش کرتا رہا تھا۔ جب کہ روس کا لونا۔25 ، اگست کی 10 تاریخ کو روانہ کیا گیا تھا۔ لیکن وہ چندریان۔3 سے پہلے جنوبی قطبی علاقے میں اترنے والا ہے۔
چندریان۔3 سے بھیجی گئی ایک ویڈیو اس وقت بنائی گئی تھی جب چاند کی سطح پر اترنے والی روبوٹک گاڑی اپنے راکٹ سے الگ ہونے کے بعد چاند کے مدار میں گردش کرتے ہوئے ان گڑھوں کے قریب سے گزری جن کے بارے میں سائنس دانوں کا خیال ہے کہ وہاں پانی موجود ہو سکتا ہے۔
بھارتی خلائی ایجنسی آئی ایس آر او کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ لینڈر یعنی چاند گاڑی درست حالت میں ہے اور وہ چاند کی سطح سے 113 سے 157 کلومیٹر کے فاصلے پر گردش کر رہی ہے۔
چونکہ روس اور بھارت دونوں کے چاند مشن ایک ہی علاقے میں محض دو دونوں کے فرق کے ساتھ اتر رہے ہیں اس لیے انتہائی دشوار گزار علاقے میں کامیاب لینڈنگ دونوں ملکوں کے سائنس دانوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
اس مشن کے لیے روس کی دوہری اہمیت ہے۔ لگ بھگ 50 برسوں کے بعد اپنا چاند مشن دوبارہ شروع کرنے سے روس یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد مغربی دنیا سے تقریباً تمام خلائی روابط کٹ جانے کے باوجود وہ بیرونی خلا کی مہمات میں اپنا آزادانہ وجود برقرار رکھ سکتا ہے۔
اس سے قبل روس کی خلائی ایجنسی روس کاسموس نے کہا تھا کہ اس کا لونا۔25 مشن چاند کے جنوبی قطبی علاقے کی تین ممکنہ جگہوں میں سے کسی ایک پر اترنے سے پہلے پانچ سے سات دن تک چاند کے مدار میں چکر لگائے گا۔
بھارت کے لیے بھی چندریان۔3 کا مشن دوہری اہمیت رکھتا ہے۔ بھارت میں آئندہ برس قومی انتخابات ہونے والے ہیں۔ چندریان کی کامیابی کو مودی کی حکومت انتخابی مہم کے لیے استعمال کر سکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت خود کو ایک خلائی طاقت کے طور پر پیش کر کے اس شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری حاصل کر سکتا ہے۔
بھارت 2020 سے خلا میں سیٹلائٹ پہنچانے والے ممالک میں شامل ہو چکا ہے اور سٹیلائٹ زمین کے مدار میں لانچ کرنے کے شعبے میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔
تاہم ایک ایسے وقت میں جب کہ چاند کے جنوبی قطب پر بھارت اور روس دونوں کے ہی چاند مشن لینڈنگ کرنے والے ہیں، بھارتی سائنس دانوں نے کہا ہے کہ وہ روس سے مقابلہ نہیں کر رہے۔
(رائٹرز)