'وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کر لیا'، یہ کہاوت کئی ملکوں کو فتح کرنے والے سکندرِ اعظم کے حوالے سے مشہور ہے۔ لیکن جب بھی کوئی غیر معمولی کارنامہ سرانجام دیتا ہے تو پھر اس کہاوت کی گونج سنائی دیتی ہے۔
بھارتی کرکٹ ٹیم کے لیے 15 برس قبل ڈیبیو کرنے والے وراٹ کوہلی نے بھی کچھ ایسا ہی کیا جس کی وجہ سے کرکٹ کی دنیا اُنہیں 'کنگ کوہلی' کے نام سے جانتی ہے۔
وراٹ کوہلی نے ٹھیک 15 برس قبل 18 اگست 2008 کو سری لنکا کے خلاف ڈیبیو کیا۔
کوہلی سے پہلے بھارتی کرکٹ میں لٹل ماسٹر سچن ٹنڈولکر کا طوطی بولتا تھا۔ لیکن کوہلی نے بھی اپنی مہارت اور تیکنیک کے باعث کروڑوں دلوں میں جگہ بنائی۔
گزشتہ 15 برسوں میں کوہلی نے کئی ریکارڈز اپنے نام کیے جس میں سرِ فہرست ایک دہائی میں سب سے زیادہ 20 ہزار انٹرنیشنل رنز بنانے کا ریکارڈ ہے۔
ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں مجموعی طور پر 76 سینچریاں اسکور کرنے کے بعد اس وقت وراٹ کوہلی دنیا میں سب سے زیادہ سینچریاں بنانے والے کھلاڑیوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ پہلے نمبر پر اب بھی بھارت کے سچن ٹنڈولکر ہیں جنہوں نے اپنے کریئر کے دوران 100 سینچریاں اسکور کیں۔
بھارتی بلے باز نے 15 برسوں میں کیسے اپنا لوہا منوایا اور کن مشکلات کو شکست دے کر وہ کامیاب ہوئے۔ اس کے لیے ان کی زندگی کے چند واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔
کوہلی کو نک نیم 'چیکو' سے کیوں پکارا جاتا ہے؟
معروف اسپورٹس صحافی وجے لوکاپالی اپنی کتاب 'ڈریون، دی وراٹ کوہلی اسٹوری' میں لکھتے ہیں کہ جب کوہلی نے انٹرنیشنل کرکٹ میں ڈیبیو بھی نہیں کیا تھا، ان کا نام 'چیکو' پڑگیا تھا جس سے ان کے ساتھی کرکٹر انہیں ڈریسنگ روم میں مخاطب کرتے تھے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ان کی عرفیت ایک ایسے وقت میں پڑی جب وہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں نووارد تھے اور ان کے مجموعی میچوں کی تعداد دس سے بھی کم تھی۔
رانجی ٹرافی میں دہلی کی ٹیم ممبئی میں میچ کھیلنے کے لیے موجود تھی اور وریندر سہواگ، گوتم گمبھیر جیسے انٹرنیشنل کھلاڑی دہلی کی ٹیم کا حصہ تھے۔
مصنف کے بقول کوہلی نے جب میچ سے پہلے اپنے ہم عمر کھلاڑیوں سے اپنے نئے ہیئر کٹ کے بارے میں رائے طلب کی، تو اسسٹنٹ کوچ اجیت چودھری نے دور سے کہا کہ 'بالکل 'چیکو 'لگ رہے ہو۔'
یوں ان کی عرفیت چیکو پڑ گئی۔ ان کی مراد چیکو پھل سے نہیں تھی بلکہ کامک بک چمپک کے ایک کردار سے تھی جس کا نام چیکو تھا۔
اجیت چودھری نے مصنف سے بات کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ کوہلی کو اس نام سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ان کا مقصد اس وقت صرف رنز اسکور کرنا تھا اور کسی بھی قسم کا نام یا عرفیت جس سے انہیں توجہ ملتی، اسے وہ ناپسند نہیں کرتے تھے۔
وہ سانحہ جس نے کوہلی کی زندگی بدل دی
اسی کتاب میں مصنف نے لکھا کہ کوہلی کی کامیابی کی پیش گوئی ان کے کوچز نے اس وقت ہی کردی تھی جب وہ رانجی ٹرافی میں قدم جمانے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہوں نے دسمبر 2006 میں ہونے والے واقعہ کا بھی تذکرہ کیا جس نے کوہلی کی زندگی بدل دی۔
کتاب میں لکھا ہے کہ دہلی کی ٹیم سابق رانجی ٹرافی ونر کرناٹک سے میچ کھیل رہی تھی۔ تیسرے دن کے کھیل سے قبل کوہلی کے والد پریم کوہلی کا انتقال ہو گیا۔
کوہلی جو میچ کے دوسرے دن کے اختتام پر 40 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ تھے، ان کے پاس دو آپشن تھے۔ ایک تو یہ کہ وہ میچ سے دست بردار ہوکر گھر پر رہتے یا پھر بیٹنگ جاری رکھتے اور انہوں نے بیٹنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے اس نتیجے پر پہنچنے سے پہلے اپنے سابق کوچ راج کمار شرما سے مشورہ کیا تھا جنہوں نے ان کے فیصلے کی حمایت کی تھی۔ یوں کوہلی نے 90 رنز بنا کر دہلی کی ٹیم کو مشکلات سے نکالا اور اس کے بعد اپنے والد کی آخری رسومات میں شرکت کی۔
اس واقعے نے جہاں دہلی کے کپتان متھن منہاس کو کوہلی کا مداح بنایا وہیں ٹیم کے کوچ اور سابق ٹیسٹ کرکٹر چیتن چوہان بھی ان کے اس فیصلے سے متاثر ہوئے۔
ادھر کرناٹک ٹیم کے کوچ وینکاٹیش پرساد نے بھی کوہلی کی کامیابی کی پیشن گوئی کی۔
ان کے بقول کوہلی کی ہمت دیکھ کر انہیں سچن ٹنڈولکر کی یاد آگئی جن کے والد کا 1999 کے ورلڈ کپ کے دوران انتقال ہو گیا تھا اور سچن صرف ایک میچ مس کرنے کے بعد دوبارہ ٹیم کا حصہ بن گئے تھے۔
انڈر 19 کرکٹ ٹیم کی نمائندگی اور ورلڈ کپ میں قیادت
اسی کتاب میں کوہلی کے انڈر 19 کرکٹ کریئر کا بھی تذکرہ ہے جس نے انہیں ایک عام کرکٹر سے ایک غیر معمولی کرکٹر بنایا۔
مصنف لکھتے ہیں کہ 2006 میں 17 برس کی عمر میں جب کوہلی نے پاکستان کا دورہ کیا تو ان کے کھیل میں بہتری آئی اور انہیں تسلسل سے رنز اسکور کرنے کی اہمیت پتا چلی۔
دورہ پاکستان میں انہوں نے راولپنڈی میں 63 اور 28 رنز کی اننگز کھیلیں جس کی وجہ سے بھارت انڈر 19 نے پہلا ٹیسٹ میچ 271 رنز سے جیتا۔ پشاور میں ان کے 83 رنز کی بدولت بھارت نے دوسرا ٹیسٹ میچ ایک اننگز اور 240 رنز سے اپنے نام کیا۔
یہ کوہلی کے شیخوپورہ میں 45 اور لاہور میں 80 رنز کی اننگز کا کمال تھا کہ ون ڈے سیریز بھارتی ٹیم نے چار صفر سے اپنے نام کر لی۔ وہ اس ٹیم کے کپتان تو نہیں تھے لیکن جب دو سال کے بعد بھارتی ٹیم نے انڈر 19 ورلڈ کپ میں حصہ لیا تو کوہلی کو ان کی کارکردگی اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے اس ٹیم کاکپتان نامزد کیا گیا۔
وہ نہ صرف انڈر 19 ورلڈ کپ کے ٹاپ تھری اسکوررز میں سے ایک تھے بلکہ انہوں نے بھارت کو انڈر 19 چیمپئن بھی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
فورم