بھارتی حکومت کی جانب سے پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کے معاملے پر فرانسیسی صدر کی حمایت پر بھارت کی متعدد مسلم مذہبی جماعتوں نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
مسلم جماعتوں کا مؤقف ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ دوسروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی جائے۔
ان جماعتوں نے پیغمبرِ اسلام کے توہین آمیز خاکوں کے سلسلے میں فرانسیسی صدر کے مؤقف کی بھی مذمت کی۔
بھارت نے اس سلسلے میں پیدا ہونے والے تنازع پر یورپی ممالک کا ساتھ دیتے ہوئے فرانسیسی صدر پر مبینہ ذاتی حملوں کی مذمت کی ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ذاتی حملے بین الاقوامی مباحثے کے بنیادی معیار کے منافی ہیں۔
وزارتِ خارجہ نے توہین آمیز خاکے دکھانے پر فرانس کے ایک استاد کو قتل کیے جانے کی بھی مذمت کی ہے۔
یاد رہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں کے مؤقف پر سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے انہیں دماغی علاج کرانے کا مشورہ دیا ہے۔
فرانس کے صدر نے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی حمایت کی ہے۔
بھارت کے سیکریٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا 29 اکتوبر سے چار نومبر تک فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے دورے پر جا رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر محمد سلیم انجینئر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت کی حکومت کو اس معاملے میں محتاط ردِ عمل دینا چاہیے۔ اسے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کے بیانات سے کسی کے جذبات مجروح نہ ہوں۔ اس کے علاوہ اسے اسلاموفوبیا پھیلانے والوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے فرانس کے صدر کے مؤقف کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ اظہارِ رائے کی آزادی کے تعلق سے ان کا بیان غیر دانشمندانہ ہے۔
ان کے مطابق اظہار رائے کے نام پر لوگوں کو ایک غیر محدود آزادی نہیں دے سکتے کہ وہ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائیں اور کسی کے خلاف نفرت پھیلائیں۔
تاہم انہوں نے ترکی کے صدر کے بیان اور ایک فرانسیسی استاد کو ہلاک کیے جانے کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ مسائل اور تنازعات کو سنجیدہ انداز میں حل کیا جانا چاہیے۔ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
دہلی کی مسجد فتح پوری کے امام مفتی مکرم احمد نے کہا کہ بھارت میں تمام مذاہب کا احترام کیا جاتا ہے اور آزادیٔ اظہار کے نام پر فرانسیسی صدر کے مؤقف کی حمایت نا قابل قبول ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کا یہ کہنا کہ اظہارِ رائے کی آزادی کی حمایت کی جانی چاہیے تو حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسے آزادی نہیں کہتے۔ جہاں کسی دوسرے کی حدود شروع ہوتی ہیں وہاں ہماری حدود ختم ہو جاتی ہیں۔
ان کے بقول تمام مذاہب کی مقدس شخصیات کا احترام کیا جانا چاہیے اور کسی کے بھی مذہبی جذبات کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے زور دے کر کہا کہ بھارت کو اس معاملے میں فرانس کے صدر کے مؤقف کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ بھارت کی ایک تہذیب اور ثقافت ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہیں اور مل جل کر رہتے ہیں تو حکومت کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے اور اسے اس ماحول کو فروغ دینے کی ضرورت ہے نہ کہ وہ نفرت انگیز ماحول کو فروغ دے۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ اس قسم کا بیان دے کر اسلاموفوبیا پھیلا رہی ہے۔ ان کے بقول حکومت خود اسلامو فوبیا میں مبتلا ہے۔
انہوں نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور ایم ایف حسین نے دیوی دیوتاؤں کی پینٹنگز بنائی تھیں تو اس حکومت میں شامل لوگوں کے حامیوں اور ہمنواؤں نے پورے ملک میں ایم ایف حسین کے خلاف ہنگامہ کیا تھا اور ان پر حملہ کیا تھا۔
انہوں نے سوال کیا کہ اس وقت اظہار رائے کی آزادی کہاں چلی گئی تھی۔
ان کے مطابق حکومت نے مذکورہ بیان دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ان تمام لوگوں کے ساتھ ہے جو مسلمانوں کو کسی بھی طرح ایذا پہنچانا چاہتے ہوں۔
نوید حامد نے کہا کہ بھارتی حکومت نے جہاں فرانسیسی صدر کی حمایت کی ہے وہیں اس کو یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ کسی بھی مذہب کے مقدس ہستیوں کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انہوں نے فرانسیسی صدر کے مؤقف کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ فرانس اظہار رائے کی آزادی کا کب سے حامی ہو گیا۔ اس کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے خود اظہارِ رائے کی آزادی کی آواز اٹھانے والوں کے خلاف سخت کارروائیاں کی ہیں۔
جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی، جمعیت علماء ہند کے جنرل سیکریٹری اور سابق رکن پارلیمان مولانا محمود مدنی، جامع مسجد دہلی کے امام سید احمد بخاری، سابق رکن پارلیمان مولانا عبید اللہ خاں اعظمی اور معروف شیعہ عالم دین مولانا محسن تقوی نے الگ الگ بیانات میں فرانسیسی صدر کے مؤقف کی مذمت کی ہے۔
دریں اثنا فیس بک انڈیا کی پالیسی سربراہ انکھی داس نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں کے مسلم مخالف اور نفرت انگیز بیانات و تقاریر کو فیس بک سے ہٹانے سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے کمپنی کے کاروبار پر منفی اثر پڑے گا۔
ان کے اس مؤقف پر دو ماہ قبل زبردست تنازع پیدا ہوا تھا اور سوشل میڈیا سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے سامنے فیس بک کے انڈیا انچارج کو پیش ہو کر صفائی دینی پڑی تھی۔