بھارت میں دو ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری لاک ڈاون میں قدرے نرمی آ رہی ہے اور حکومت کی کوشش ہے کہ معمولات کو بتدریج بحال کیا جائے۔ عوام بھی محتاط رویے کا اظہار کر رہے ہیں۔
دو ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری لاک ڈاون کے بعد اب بھارتی حکومت کی کوشش ہے کہ زندگی کے معمولات بحال کیے جائیں اور آہستہ آہستہ پابندیوں کو نرم کیا جائے۔ تھوڑے بہت بازار کھلنا شروع ہو گئے ہیں۔ سڑکوں پر بسیں اور آٹو رکشا چلنے لگے ہیں۔
مگر دو کروڑ سے زیادہ آبادی والے شہر دہلی کو کرونا نے اب بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ملک کی دس فی صد متاثرہ آبادی اس شہر میں بستی ہے۔ اس لیے بہت سے لوگ اب بھی سماجی فاصلوں اور کرونا سے بچاؤ کی دیگر پابندیوں پر عمل کر رہے ہیں۔
دو ہفتے قبل وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ ہمارے سامنے دوہرا چیلنج ہے۔ ایک طرف وائرس کا زور توڑنا ہے اور دوسری طرف بتدریج اپنی زندگی کے معمولات میں اضافہ کرنا ہے۔ حکومت انہی دونوں خطوط پر آگے بڑھ رہی ہے۔
مقامی دکانداروں کا کہنا ہے کہ مناسب احتیاط کے ساتھ کاروبار کو اب کھلنا چاہیے۔ شہر جزوی طور پر کھولا گیا ہے مگر شاپنگ مالز، ریستوران، ہوٹل اور تعلیمی ادارے بند ہیں۔ جب کہ بعض دفاتر کھلے ہیں اور قلیل تعداد میں سٹاف کام کر رہا ہے۔ گاہک بھی ضروری اشیا کی خریداری کر کے جلد از جلد باہر نکل جاتے ہیں۔ اسی لیے جیولری وغیرہ کی دکانیں سنسان پڑی ہیں۔ لوگ معاشی حالات کے پیش نظر کم بچت کرنے کے موڈ میں ہیں۔
نئی دہلی میں وائس آف امریکہ کی نامہ نگار انجنا پسریچا نے ایک مسلمان رکشا ڈرائیور سے بات کی، جس کا کہنا تھا کہ رمضان کے مہینے میں رکشا چلانا ایک مشکل کام ہے مگر گھر چلانے کے لیے میں یہ مزدوری کر رہا ہوں۔
عید کے دن مسلمانوں نے نماز عید بھی ادا کی، مگر کرونا وائرس کی پابندیوں کی وجہ سے پہلے جیسی گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آئی۔