بھارت کی ریاستوں پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش کے کسانوں نے فصلوں کی قیمتِ خرید کے لیے حکومت کی جانب سے پیش کی جانے والی نئی تجویز مسترد کر دی ہے اور 21 فروری سے دوبارہ دلی مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تین مرکزی وزرا اور کسانوں کے نمائندوں کے درمیان اتوار کو چوتھے دور کی بات چیت ہوئی جس کے دوران حکومت نے تین قسم کی دالوں، مکئی اور کپاس پر پانچ سال کے لیے کم سے کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) میں فصلیں خریدنے کی تجویز رکھی تھی۔
کسانوں نے حکومت کے سامنے اپنے کئی مطالبات رکھے ہیں جن میں سب سے اہم مطالبہ تمام فصلوں پر ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی ہے۔ ایم ایس پی کے تحت حکومت کسانوں کی فصلوں کو خریدتی ہے۔ ایم ایس پی فصلوں کی لاگت سے 30 فی صد زائد قیمت ہوتی ہے۔
قبل ازیں 8 ،12 اور 15 فروری کو کسان نمائندوں اور حکومت کے تین وزرا ارجن منڈا، پیوش گوئل اور نتیانند رائے کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے۔
حکومت کو امید تھی کہ چوتھے دور کی بات چیت میں مسئلے کا حل نکل آئے گا۔
حکومت کی تجویز پر کسانوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس پر وسیع تر غور و فکر کرنے کے بعد اپنا فیصلہ سنائیں گے۔
انہوں نے پیر کی شام کو ایک پریس کانفرنس میں اس تجویز کو مسترد کر دیا اور کہا کہ وہ تمام 23 فصلوں پر اور پورے ملک کے لیے حکومت کی گارنٹی چاہتے ہیں۔
احتجاج کی قیادت کرنے والے کسانوں کے محاذ ’سمیوکت کسان مورچہ‘ (ایس کے ایم) کے کنوینر جگجیت سنگھ ڈلیوال نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اس تجویز سے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ تجویز کسانوں کو بھٹکانے اور ان کی تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات کے دوران مرکزی وزرا نے کہا تھا کہ حکومت تمام فصلوں کو ایم ایس پی میں خریدے گی۔ لیکن باہر آ کر پریس کانفرنس میں انہوں نے بالکل مختلف بات کی۔ یہ کسانوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔
ان کے مطابق حکومت نے ان کے دیگر مطالبات جیسے کہ قرضوں کی معافی، بجلی کی عدم نجکاری، فصلوں کے لیے بیمہ اسکیم، 60 سال سے اوپر کے کسانوں کو 10 ہزار روپے ماہانہ پینشن اور لکھیم پور فائرنگ کے معاملے پر نائب وزیرِ داخلہ اجے مشرا ٹینی کی برطرفی پر کوئی وعدہ نہیں کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پنجاب اور ہریانہ کی سرحد پر واقع شمبھو بارڈر پر ہونے والی پریس کانفرنس میں ’کسان مزدور مورچہ‘ کے رہنما سورن سنگھ پنڈھیر نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ یا تو مسائل حل کرے یا سڑکوں پر نصب کی گئی رکاوٹیں ہٹائے اور انہیں دہلی تک مارچ کرنے کی اجازت دے۔
ان کے مطابق حکومت کی نیت واضح ہے کہ وہ ہمیں کسی بھی قیمت پر دہلی میں داخل ہونے دینا نہیں چاہتی۔ ہم جب دہلی کی طرف بڑھتے ہیں تو ہمارے اوپر آنسو گیس کی شیلنگ کی جاتی ہے۔ ٹریکٹروں کے ٹائروں پر گولی ماری گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہریانہ کی صورتِ حال (بھارت کے زیر انتظام) کشمیر جیسی ہے۔ ہم 21 فروری کو دہلی کی طرف مارچ کریں گے جو کچھ بھی ہو گا اس کی ذمہ دار حکومت ہو گی۔
ان کے مطابق ہریانہ کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) کا کہنا ہے کہ کسانوں پر آنسو گیس کی شیلنگ نہیں ہوئی ہے۔ وہ غلط بیانی کر رہے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جنہوں نے شیلنگ کی ہے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
بات چیت کے اختتام پر مرکزی وزیر پیوش گوئل نے کہا تھا کہ مذاکرات خوش گوار ماحول میں ہوئے ہیں۔ ہم نے حکومت کے دو اداروں کے ذریعے پانچ سال کے لیے ایم ایس پی پر تین قسم کی دالوں، مکئی اور کپاس کی خرید کی تجویز پیش کی ہے۔ اس بارے میں کسانوں اور حکومت کے اداروں کے درمیان پانچ سال کا معاہدہ ہو گا۔
کسانوں کی ایک تنظیم ’آل انڈیا کسان مزدور سبھا‘ (اے آئی کے ایم ایس) کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر آشیش متل کا کہنا ہے کہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ تمام فصلوں پر ایم ایس پی نہیں دے سکتی کیوں کہ اس سے اس پر بہت زیادہ مالی بوجھ پڑے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت پر اضافی بوجھ تو پڑے گا لیکن اتنا نہیں جتنا حکومت بتا رہی ہے۔
یہ بھی جانیے
بھارت میں کسان ایک بار پھر سڑکوں پر کیوں ہیں؟کسانوں کا 'دلی مارچ'؛ مذاکرات کی ناکامی کے بعد جھڑپیں، آنسو گیس کی شیلنگوہ ایک مالیاتی ادارے ’کرائسل انٹرنیٹ فنانشل‘ کی رپورٹ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ اگر 2023 میں حکومت تمام فصلوں پر ایم ایس پی دیتی تو اس پر صرف 21 ہزار کروڑ روپے کا ہی مالی بوجھ پڑتا۔
ان کے مطابق اگر حکومت کسی فصل کی قیمت متعین کر کے اس کی قانونی گارنٹی دے کر خریدتی ہے تو وہ قیمت ایک بینچ مارک ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر بینچ مارک نہیں ہے تو پرائیویٹ تاجروں کا فائدہ ہوتا ہے۔ وہ کم قیمت پر فصلیں خریدتے ہیں۔
وہ مثال دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ حکومت نے گزشتہ سال دھان کی فصل کی قیمت 21.83 روپے فی کلوگرام متعین کی تھی اور وہ صرف پنجاب اور ہریانہ میں خریدتی رہی ہے۔ لہٰذا بہار میں کسانوں کو 1200 روپے کوینٹل میں ہی اپنا دھان فروخت کرنا پڑا اور تاجروں نے پنجاب میں لا کر اسے 2200 میں فروخت کر دیا۔ اس لیے کسانوں کا مطالبہ ہے کہ تمام فصلوں پر ایم ایس پی ہو اور پورے ملک کے لیے ہو۔
یاد رہے کہ کسانوں نے 13 فروری سے اپنا احتجاج شروع کیا ہے۔ وہ پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش سے دہلی کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن پولیس انہیں اجازت نہیں دے رہی۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس وقت شمبھو بارڈر پر لگ بھگ 10 ہزار کسان موجود ہیں۔ بارڈر پر ہریانہ اور پنجاب پولیس کی جانب سے کسانوں کو روکنے کے لیے غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں۔ بڑی تعداد میں پولیس کی موجودگی ہے۔ اس کے علاوہ سڑکوں پر بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں اور کیلیں گاڑ دی گئی ہیں۔
ڈاکٹر آشیش متل کہتے ہیں کہ کسان پُر امن انداز میں دہلی کی طرف مارچ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن حکومت انہیں روک رہی ہے۔ انہوں نے کسانوں کو روکنے کے لیے کیے گئے انتظامات کی مذمت کی۔
جب کسانوں نے 13 فروری کو دلی مارچ کا آغاز کیا تو بارڈر پر پولیس سے ان کا تصادم ہوا تھا۔
وائرل ویڈیوز میں آنسو گیس کی شیلنگ دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ ان پر ڈرونز کے ذریعے بھی شیلنگ کی گئی۔
کسانوں نے اگلے روز بسنت پنچمی کے دن شمبھو بارڈر پر بڑی تعداد پتنگ بازی کی اور ڈرونز کو پتنگوں کی ڈور سے ناکارہ بنانے کی کوشش کی۔ جب پتنگیں ڈرونز کے قریب پہنچتیں تو وہ دور چلے جاتے۔
کسان رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ پولیس کی کارروائی میں 400 کسان زخمی ہوئے ہیں۔
کسان رہنماؤں نے انٹرنیٹ کی بندش پر پنجاب حکومت کی مذمت کی ہے۔
کسانوں کی جانب سے اس سے قبل کیے گئے احتجاج کی مانند ٹریکٹروں کو کیمپوں میں تبدیل کیا گیا اور ان میں کھانے پینے اور سونے کے انتظامات کیے گئے ہیں۔
سردست شمبھو بارڈر پر امن ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ ہمارا احتجاج پر امن ہے۔ کسان رہنماؤں نے احتجاج میں شامل کسانوں سے تشدد سے دور رہنے اور پرامن احتجاج کرنے کی اپیل کی ہے۔
دریں اثنا پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے جو کہ اب حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) میں ہیں کسانوں کے مطالبات کے سلسلے میں منگل کو وزیرِ اعظم نریند رمودی سے ملاقات کی ہے۔
رپورٹس کے مطابق اگر حکومت کسانوں کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے تمام فصلوں کو ایم ایس پی میں خریدتی ہے تو ایک اندازے کے مطابق حکومت کے خزانے پر 10 لاکھ کروڑ روپے کا بوجھ پڑے گا۔