بھارت میں گزشتہ دو برسوں کے دوران میں سونے کی قیمتوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی طلب میں بدستور اضافہ ہورہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بھارت میں ہر سال ایک کروڑ شادیاں ہوتی ہیں اور مقامی رواج کے تحت دلہن کے لیے سونے کے زیورات لازمی سمجھے جاتے ہیں۔ اس کےعلاوہ قیمتوں میں مسلسل اضافے کے پیشِ نظر سرمایہ کاری کی غرض سے بھی سونے کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔
بھارت اپنی ضرورت کا تمام تر سونا بیرونِ ملک سے درآمد کرتا ہے اور صرف گزشتہ برس مقامی طلب پوری کرنے کے لیے بھارتی تاجروں نے لگ بھگ 816 میٹرک ٹن سونا درآمد کیا۔
سونے کی یہ بڑھتی ہوئی طلب بھارتی حکومت کے لیے باعثِ پریشانی ہے کیوں کہ پیٹرولیم مصنوعات کے بعد بھارت سب سے زیادہ غیر ملکی زرِ مبادلہ سونے کی درآمد پر خرچ کر رہا ہے۔سونے کی قیمتوں میں اضافے اور مقامی کرنسی کی قدر میں کمی کے باعث 2011ء میں سونے کی درآمد پر خرچ کی جانے والی رقم 55 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہی۔
سونے کی مقامی طلب کی حوصلہ شکنی کے لیے حکومت نے حال ہی میں اس کی درآمد پر عائدٹیکس دگنا کرکے چار فی صد کردیا ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں افراطِ زر میں اضافے اور حصص کے کاربار میں مندی کے رجحان کے باعث سونے کی شرحِ منافع سرمایہ کاری کے دیگر ذرائع کے مقابلے میں حوصلہ افزا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی معاشرے میں سونے میں سرمایہ کاری کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
درآمدی ٹیکس میں اضافے کے بعد اب بھارتی حکومت اس 16 ہزار میٹرک ٹن سونے کے استعمال کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات پر غور کر رہی ہے جو عام بھارتی شہریوں نے سرمایہ کاری کی غرض سے خرید کر گھروں میں محفوظ کر رکھا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سونے کا 20 فی صد حصہ اینٹوں اور سکوں کی صورت میں ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ بھارتی معاشرے میں سونے کی طلب دیہی اور شہری علاقوں میں یکساں ہے اور کم آمدنی والے بھارتی شہریوں میں بھی بچت کرکے سونا خریدنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔