بھارت کی حکومت نے بدھ کو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا ایک اجلاس طلب کیا ہے جس میں پارلیمان سے انسدادِ بدعنوانی کے سخت قانون کی منظوری کا مطالبہ کرنے والے بھوک ہڑتالی سماجی کارکن انا ہزارے کے ساتھ جاری تنازع کے خاتمے پر بات چیت کی جائے گی۔
دریں اثناء ہزارے کی بھوک ہڑتال منگل کو آٹھویں روز میں داخل ہوگئی ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ 74 سالہ سماجی کارکن کا پانچ کلو گرام وزن کم ہوچکا ہے۔
اس سے قبل پیر کو بھارتی وزیرِاعظم من موہن سنگھ نے عندیہ دیا تھا کہ وہ ہزارے سے ان کے مجوزہ انسدادِ بدعنوانی کے قانون پر "بامعنی مذاکرات کے لیے تیار ہیں"۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ قانون کے حوالے سے کسی بھی قسم کے خدشات کا اظہار پارلیمان میں پیش کیا جانا چاہیے۔
رواں ماہ کے آغاز میں بھارت کی حکمران جماعت کانگریس نے پارلیمان کے سامنے ایک قانون کا مسودہ پیش کیا تھا جس کے تحت ایک ایسے شہری ادارے کا قیام تجویز کیا گیا ہے جو حکومتی وزراء اور افسر شاہی کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کرسکے گا۔ تاہم ہزارے اس بل کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کر رہے ہیں کہ قانون کے دائرہ اختیار سے وزیرِاعظم اور عدلیہ کو باہر رکھا گیا ہے۔
ہزارے نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر پارلیمان نے ان کے تجویز کردہ قانون کی 30 اگست تک منظوری نہ دی تو وہ اپنی بھوک ہڑتال غیر معینہ مدت تک جاری رکھیں گے۔
انا ہزارے سے اظہارِ یکجہتی کے لیے گزشتہ ہفتے کے دوران ہزاروں بھارتی شہریوں نے دارالحکومت نئی دہلی کے رام لیلا میدان کا دورہ کیا جہاں ہزارے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔ ہزارے کی اس جدوجہد نے ان کے لاکھوں ہم وطنوں کو متحرک کردیا ہے۔
تاہم تمام بھارتی ہزارے کے طریقوں کے حامی نہیں۔ 'بْکر' انعام یافتہ بھارتی مصنفہ اور سماجی کارکن ارون دھتی رائے نے 'دی ہندو' میں تحریر کردہ اپنے ایک مضمون میں ہزارے کی جانب سے تجویز کردہ قانون کو "سفاکانہ" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا انحصار ایک بہت بڑی نوکر شاہی پر ہوگا۔
واضح رہے کہ بھارتی ذرائع ابلاغ جیسے جیسے اعلیٰ حکام کی کرپشن کے اسکینڈلز بے نقاب کر رہے ہیں، بھارت میں سرکاری سطح پر پائی جانے والی بدعنوانی کے خلاف عوامی غم و غصہ بتدریج بڑھتا جارہا ہے۔