بھارتی حکومت کے ذرائع نے حافظ سعید کی گرفتاری پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک ان کے خلاف حقیقی عدالتی کارروائی نہیں ہوتی اور انہیں سزا نہیں دی جاتی اس وقت تک ایسے اقدامات پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
حکومت کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ صرف گرفتاری کافی نہیں ہے۔ ان کے خلاف عدالتی کارروائی چلنی اور انھیں سزا سنائی جانی چاہیے۔
بقول ان کے ہم حقیقی ایکشن چاہتے ہیں۔ اس قسم کے اقدامات نہیں، جنہیں واپس لیا جا سکے۔ ایک عدالت ان کی گرفتاری کا حکم سناتی ہے اور دوسری رہائی کا۔
حکومت کے ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ نئی دہلی میں ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ پاکستان نے یہ قدم وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے پیش نظر اٹھایا ہے جس نے حافظ سعید پر دس ملین ڈالر کا انعام رکھا ہوا ہے۔
ان کے بقول ہم نے پہلے بھی ایسے اقدامات دیکھے ہیں۔ دورے کے بعد پھر وہی سب کچھ ہونے لگتا ہے جو پہلے ہوتا رہا ہے۔
حافظ سعید کی گرفتاری پر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ممئبی دہشت گرد حملوں کے ماسٹر مائنڈ کو بالآخر دس برس کی تلاش کے بعد گرفتار کر لیا گیا ہے۔
لیکن نئی دہلی کے تجزیہ کار اسے حکومت پاکستان کا ایک مثبت قدم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس پر شک نہیں کیا جانا چاہیے۔
ایک سینئر تجزیہ کار جے شنکر گپتا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اچھا قدم ہے لیکن پاکستان کو دہشت گردی مخالف جنگ میں اپنی سنجیدگی بھی دکھانی ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی تو کرتا ہے لیکن انہیں پھر اپنی کارروائیاں کرنے کی آزادی مل جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف لڑنا چاہئیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ملکوں کو بات چیت کی مدد سے مسائل حل کرنے چاہئیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ بھی دہشت گردی کے خلاف ہے اور دہشت گردی کا شکار بھی ہے۔ اس نے انسداد دہشت گردی کے کئی آپریشن کیے ہیں اور بہت سے دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے۔ وہ بھی بھارت کے ساتھ مذاکرات کی مدد سے مسائل حل کرنا چاہتا ہے۔
ایک اور سینئر تجزیہ کار منصور آغا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یوں تو حافظ سعید پر ممبئی حملوں کا بھی الزام ہے لیکن ان کی یہ گرفتاری اس کی وجہ سے نہیں بلکہ دوسرے معاملات میں ہوئی ہے۔ اسی ماہ کی پہلی تاریخ کو حافظ سعید اور 23 دیگر لوگوں کے خلاف 23 کیس درج ہوئے تھے جن میں دو روز قبل ایک عدالت نے انہیں پیشگی ضمانت دے دی تھی۔
ان کے بقول پاکستان پر امریکہ کا کافی دباؤ تھا۔ اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف نے اپنے اجلاس میں کہا تھا کہ اگر کارروائی نہیں کی گئی تو پاکستان کو بلیک لسٹ کیا جا سکتا ہے۔ اب ایسے میں جب کہ عمران خان امریکہ جا رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے تعلقات کافی خراب ہیں تو حافظ سعید کی گرفتاری کی گئی ہے اور یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل بھی دو بار انہیں گرفتار کیا گیا تھا اور دونوں مرتبہ فیصلہ ان کے حق میں گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ استغاثہ نے ان کے خلاف جو دفعات قائم کیں اور جو ثبوت فراہم کیے وہ قابل قبول نہیں ہیں۔
منصور آغا نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے جس طرح بھارت کے لیے اپنی فضائی حدود کھولی ہیں اور کرتار پور راہداری معاملے میں بھارت کی دو شرطیں مان لی ہیں وہ مثبت قدم ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مفاہمت کی کوشش کر رہا ہے۔