ایک سرکاری ذریعے نے بدھ کو بتایا کہ بھارت ایران کے ساتھ سفارتی چینل سے بات چیت کر رہا ہے اور بحیرہ احمر میں اپنے برآمد کنندگان کے بحری جہازوں کو یمن کے حوثی گروپ کے حملوں سے بچانے کے لیے دیگر اقدامات کر رہا ہے۔ ایران یمن کے حوثی باغیوں کی سرپرستی کرتا ہے۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب امریکہ نے حوثی باغیوں کو دوبارہ خصوصی نامزد عالمی دہشت گرد گروپ کے طور پر نامزد کیا ہے۔
حوثیوں کے حملوں سے ایشیا اور یورپ کے درمیان بحری تجارت کی ترسیل سست پڑ گئی ہے اور سامان کی فراہمی کے تسلسل میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔
حوثیوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ حملے غزہ کے فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لیے کر رہے ہیں۔ انہوں نے حملوں کا دائرہ وسیع کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی بھی دھمکی دی ہے ۔
خطے میں امن کو لاحق خطرات ایک ایسے وقت میں بڑھ رہے ہیں جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ چوتھے مہینے میں داخل ہو گئی ہے۔
SEE ALSO: تجارتی جہاز پر حملہ: بھارت نے بحیرۂ عرب میں وار شپس تعینات کردیے7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر اچانک اور حیران کن بڑے حملے میں 1200 افراد ہلاک اور 240 کے لگ بھگ کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اس کے ردعمل میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں فلسطین کے محکمہ صحت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 24000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ غزہ کا زیادہ تر حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے 85 فی صد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر مختلف علاقوں میں پناہ لینی پڑی ہے۔ بے گھر افراد کی اکثریت شدید سردی میں سڑکوں کے کنارے عارضی خمیوں میں رہ رہی ہے اور ان کے پاس خوراک، پانی، ایندھن اور ادویات کی شدید کمی ہے۔
SEE ALSO: امریکی بحریہ نے حوثیوں کے لیے فوجی سامان لے جانے والا جہاز پکڑ لیابھارتی وزیر خارجہ سبرامینم جے شنکر نے پیر کے روز ایران میں حکام سے بات چیت کی جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس گفتگو کا مرکز بحیرہ احمر کی صورت حال تھا۔
ایک سرکاری ذریعے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بھارت کی وزارت دفاع نے خطے میں نگرانی بڑھا دی ہے کہ وزارت خارجہ اس معاملے پر سفارتی بات چیت کر رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزارت خزانہ کا بینکاری کا شعبہ بحیرہ احمر کی صورت حال سے متاثر ہونے والے برآمدکندگان کے لیے قرضوں کی فراہمی میں آسانیاں پیدا کر رہا ہے۔
SEE ALSO: یمنی حوثی باغیوں کی امریکی بحری جہاز پر حملے کی کوشش، طیارے نے میزائل تباہ کر دیےرائٹرز سے بات کرنے والے ذریعے نے بتایا کہ ان اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ قرضوں کی فراہمی کو یقینی بنا کر برآمدات کا تسلسل قائم رکھا جائے، کیونکہ تجارتی سامان کی ترسیل میں تاخیر ہو رہی ہے اور اسے بھیجنے کے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔
رائٹرز کی جانب سے اس بارے میں تبصرے کی درخواست پر بھارتی وزارت خارجہ نے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
بحیرہ احمر کا راستہ اختیار کرنے والے بحری جہاز نہر سوئز سے گزرتے ہیں۔ جو مشرق اور مغرب کے درمیان ایک اہم تجارتی آبی گزرگاہ ہے۔ اس راستے سے ایشیا میں تیار ہونے والی مصنوعات یورپ اور براعظم امریکہ تک پہنچتی ہیں اور دنیا کی کل تجارت کے تقریباً 12 فی صد کا انحصار اس آ بی گزرگاہ پر ہے۔
SEE ALSO: ایرانی جنگی جہاز البرز بحیرہ احمر میں داخلبھارت کی وزارت دفاع خطے میں بھارتی تجارتی جہازوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے اور بھارتی نیوی نے بحیرہ عرب میں تجارتی جہازوں پر کم از کم دو حملوں کو ناکام بنایا ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بحیرہ احمر کی صورت حال کا بڑی بندرگاہوں کے تجارتی حجم پر فی الحال کوئی اثر نہیں پڑا اور تجارتی جہاز حملوں سے بچنے کے لیے طویل راستوں سے سفر کر رہے ہیں۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)