ایک بھارتی عدالت کے فیصلے کی تعمیل کرتے ہوئے انٹرنیٹ سرچ انجن 'گوگل' اور سماجی نیٹ ورکنگ کی معروف ویب سائٹ 'فیس بک' نے اپنی بھارتی ویب سائٹس پر سے مبینہ طور پر متنازع مواد ہٹا دیا ہے۔
مذکورہ دونوں کمپنیاں ان 21 بڑی انٹرنیٹ کمپنیوں میں شامل ہیں جنہیں ایک بھارتی عدالت نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنی ویب سائٹس پر سے ایسے مواد کو ہٹادیں جن سے ہندووں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہو۔
اس عدالتی فیصلے کی بنیاد گزشتہ برس منظور کیا گیا ایک قانون ہے جس میں ویب سائٹس پر صارفین کی جانب سے درج اور جاری کیے گئے مواد کا ذمہ دار منتظم کمپنیوں کو ٹہراتے ہوئے انہیں ایسے مواد کو شکایت کے اندراج کے 36 گھنٹوں کے اندر مٹانے کا پابند کیا گیا ہے۔
'یاہو' اور 'مائیکرو سوفٹ' سمیت بعض دیگر کمپنیوں نے مذکورہ قانون کے خلاف عدالت میں اپیل کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ استعمال کنندگان (یوزرز) کی جانب سے کمپنیوں کی ویب سائٹس پر درج اور شائع کیے گئے پیغامات اور موادکا ذمہ دار کمپنیوں کو نہیں ٹہرایا جاسکتا۔
تاہم مقدمے کی سماعت کرنے والے جج نے انٹرنیٹ کمپنیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انہوں نے مذہبی طور پر حساس معاملات کا لحاظ نہ کیا تو انہیں بھارت میں "چین کی طرح " کے آن لائن کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
بھارت میں شہری آزادیوں کے لیے سرگرم تنظیمیں اس قانون کی مخالفت کرتی آئی ہیں تاہم حکومت کا اصرار ہے کہ قانون کا مقصد آئین میں دی گئی اظہارِ رائے کی آزادی کے بنیادی حق کو پامال کرنا نہیں ہے۔
قانون کی حامی سیاست دانوں کا موقف ہے کہ بھارت میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ رہا ہے اور قدامت پسندسماج کے حامل ملک میں انٹرنیٹ پر متنازع اور توہین آمیز مواد کی اشاعت سے مذہبی گروہوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔