بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اتوار کو بھارتی فوج کے ایک ہیڈکوارٹر پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد پیر کو وزیراعظم نریندر مودی نے ایک سطحی اجلاس کی صدارت کی، جس میں اُن کی کابینہ کے سینیئر وزرا نے شرکت کی۔
بھارتی کشمیر کے علاقے اُڑی میں فوج کے ایک ہیڈ کوارٹر پر حملے میں کم از کم 17 بھارتی فوجی مارے گئے تھے جب کہ جوابی کارروائی میں چار حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا۔
اس حملے کے بعد بھارتی فوج کے سربراہ جنرل دلبیر سنگھ اور ملک کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے اُڑی کا دورہ کیا تھا اور پیر کو جنرل دلبیر اور بھارتی وزیر دفاع نے وزیراعظم نریندر مودی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس کے شرکا کو بریفنگ دی۔
بھارت حکومت نے ’نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی‘ (این آئی اے) کی ایک ٹیم کو فوری طور پر اُڑی بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ کشمیر میں ہونے والے اس مہلک حملہ کی تحقیقات کر سکے۔
اُدھر خبر رساں ادارے ’رائیٹرز‘ کے مطابق بھارت نے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی ’لائن آف کنٹرول‘ پر گشت بڑھا دیا ہے۔
دریں اثنا امریکہ کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی بھارت کے زیرا نتظام کشمیر میں دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
امریکہ محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے اتوار کو ایک بیان میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنے پختہ عزم پر قائم ہے۔
واضح رہے کہ خودکار اسلحہ اور دستی بموں سے لیس چار مسلح افراد نے اُڑی کے علاقے میں بھارتی فوج کے ایک بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر اتوار کی صبح لگ بھگ ساڑھے پانچ بجے حملہ کیا تھا اور تقریب تین گھنٹوں تک جاری رہنے والی لڑائی میں تمام حملہ آور مارے گئے تھے۔
اس حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلے جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ "ہم اڑی میں اس بزدلانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔۔۔۔ میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ جو بھی اس حملے کے پیچھے ہیں وہ سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔"
جب کہ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان دہشت گردی اور دہشت گرد گروپوں کی براہ راست حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کی ’’شناخت دہشت گرد ریاست کے طور پر کی جانی چاہیئے اور اسے الگ تھلگ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
پاکستان کی طرف سے بھارت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان کا کشمیر میں ہونے والے حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس طرح کے الزام کا مقصد اُن کے بقول بھارتی کشمیر میں جاری کشیدگی سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانا ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جولائی کے اوائل میں ایک نوجوان علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی بھارتی سکیورٹی فورسز سے جھڑپ میں مارے جانے کے بعد سے وہاں صورتحال کشیدہ ہے اور اس دوران ہونے والے مظاہروں کے دوران جھڑپوں میں اب تک 80 کے لگ بھگ افراد مارے جا چکے ہیں۔