بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے منگل کو ماسکو میں روس کے ہم منصب سرگئی لاروف سے ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے دوطرفہ، علاقائی اور عالمی امور پر تبادلۂ خیال کیا۔
مذاکرات کے دوران روس یوکرین جنگ کے معاملے پر بھی گفتگو ہوئی اور جے شنکر نے جنگ بندی کے لیے ایک بار پھر بھارت کی معاونت کی پیشکش کی۔ وہ دو روزہ سرکاری دورے پر پیر کی شام ماسکو پہنچے تھے۔
بھارت کے خبر رساں ادارے ’اے این آئی‘ کے مطابق مذاکرات کے بعد جے شنکر نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ لاوروف کے ساتھ مذاکرات میں جنگ کا معاملہ زیرِ بحث آیا۔
ان کے بقول عالمی معیشت ایک دوسرے پر بہت زیادہ منحصر ہےاور اس پر کسی اہم تنازع کا اثر نہیں پڑنا چاہیے۔
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ دو سال کی کرونا وبا کے بعد ’گلوبل ساؤتھ‘ اس درد کو بہت شدت سے محسوس کر رہا ہے۔
گلوبل ساؤتھ ترقی پذیر ممالک، جن میں لاطینی امریکہ، ایشیا، افریقہ اور اوشینیا شامل ہیں،ان کے بھی سب سے کم ترقی یافتہ ملکوں کو کہتے ہیں۔
جے شنکر نے یوکرین جنگ کے تناظر میں کہا کہ بھارت مذاکرات اور سفارت کاری کی مضبوطی سے وکالت کرتا ہے اور امن، عالمی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا حامی ہے۔
انہوں نے غذائی اجناس اور کھاد کی بحری جہازوں سے سپلائی جیسے امور میں مدد اور عالمی معیشت کو لاحق خطرات کو کم کرنے کے سلسلے میں کسی بھی کوشش کی حمایت کی پیشکش کی۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے روس یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی سے فون پر متعدد بار تبادلۂ خیال کیا ہے جب کہ مذاکرات اور سفارت کاری سے تنازعے کو حل کرنے پر زور دیا ہے۔
انہوں نے 16 ستمبر کو سمرقند میں پوٹن سے ہونے والی ملاقات میں کہا تھا کہ یہ جنگ کا دور نہیں ہے۔
مبصرین کے مطابق روس اور بھارت گہرے دوست ہیں البتہ اس جنگ کا اثر نئی دہلی پر بھی پڑ رہا ہے۔ جنگ نے بھارت کے سامنے سفارتی مشکلات کھڑی کر دی تھیں البتہ وہ غیر جانب داری کی اپنی خارجہ پالیسی پر قائم رہا۔
اس نے جہاں روسی حملے کی مذمت نہیں کی، وہیں وہ جنگ کو ختم کرانے کی کوشش بھی کرتا رہا ہے۔ اس کے رشتے روس سے بھی ہیں اور یوکرین سے بھی ہیں۔
سابق سفارت کار منجو سیٹھ کا کہنا ہے کہ بھارت تو چاہتا ہے کہ جنگ ختم ہو جائے اور اس نے اپنے تعاون کی پیشکش کی ہے۔ روسی وزیرِ خارجہ نے بھارت کے مؤقف کی توصیف کی ہے البتہ بھار ت کی کوشش اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب دونوں فریق بھی ایسا چاہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں منجو سیٹھ کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے دونوں رہنماؤں سے بار بار کہا ہے کہ وہ مذاکرات اور سفارت کاری سے تنازعے کو حل کریں۔ دونوں ملکوں کی جانب سے اس بارے میں مثبت باتیں بھی ہوئی ہیں لیکن جب تک دونوں راضی نہیں ہوں گے کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔
امریکہ کے ’ولسن سینٹر‘ میں سینئر ایسوسی ایٹ برائے جنوبی ایشیا اور ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے امریکہ کے اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت جنگ بندی کے لیے ممکنہ ثالث ہو سکتا ہے۔ وہ ا س کردار کو ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے لیکن وہ ایسا کرنے میں جھجک دکھا سکتا ہے۔
ان کے مطابق اگر بھارت ثالثی کے لیے راضی ہوتا ہے تو جنگ ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس جنگ سے بھارت کے اسٹریٹجک مفادات پر بھی اثر پڑ رہا ہے لیکن وہ اپنے تنازعات میں عالمی ثالثی کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ وہ روس اور یوکرین کے معاملے میں ایسا کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔
Your browser doesn’t support HTML5
منجو سیٹھ کہتی ہیں کہ بھارت نے اپنی جانب سے ثالثی کی پیشکش نہیں کی ہے البتہ اس نے دونوں ممالک سے کہا ہے کہ جنگ بند کر کے بات چیت شروع کریں۔ وہ اس معاملے میں مدد کے لیے تیار ہے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کی کوشش کتنی کامیاب ہو گی۔
ان کے بقول جنگ سے پوری دنیا اور بالخصوص ترقی پذیر اور غریب ممالک بہت زیادہ متاثر ہیں۔ توانائی اور غذائی اجناس کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ یوکرین، روس اور یورپ کے عوام بھی اس سے متاثر ہیں۔
مبصرین کے مطابق جنگ کی وجہ سے یورپ کو بھی مہنگائی اور ایندھن کی کمی کے مسائل کا سامنا ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ مغرب کی جانب سے یوکرین کی مدد کی وجہ سے بھی جنگ طول پکڑ رہی ہے۔
منجو سیٹھ کہتی ہیں کہ مغربی ممالک کی جانب سے یوکرین کی جو مدد کی جا رہی ہے، اس پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرین کو مغرب کی حمایت ایک بڑا مسئلہ ہے۔
مغرب کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور جمہوریت کا دفاع کرنا اس کا فرض ہے۔ یوکرین پر حملے کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں۔
نریند رمودی نے چا راکتوبر کو یوکرین کے صدر زیلنسکی سے ایک بار پھر فون پر بات کی اور کہا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور بھارت قیام امن کے لیے مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق زیلنسکی نے مودی سے کہا کہ وہ مذاکرات کے حق میں ہیں البتہ وہ پوٹن سے بات نہیں کریں گے۔
منجو سیٹھ کہتی ہیں کہ پوٹن اور زیلنسکی نے ایک دوسرے کے بارے میں بہت منفی تبصرے کیے ہیں۔ پوٹن نے تو شروع میں زیلنسکی کے بارے میں بہت تضحیک آمیز گفتگو کی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے بات کرنا نہیں چاہتے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عالمی امور میں نہ تو کوئی مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی مستقل دشمن۔ لہٰذا دونوں کو عملی رویہ اختیار کرنا پڑے گا اور جنگ بندی کے لیے آگے آنا پڑے گا۔
ادھر مذاکرات کے دوران روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کو جنگ کے سلسلے میں تفصیلات بتائیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے کہ روس اسے جنگ نہیں بلکہ ’اسپیشل ملٹری آپریشن‘ کہتا ہے جو کہ بقول اس کے صدر پوٹن نے اپنے ہدف کے حصول کے لیے شروع کیا ہے۔
روس کے وزیرِ خارجہ نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ انہوں نے جے شنکر کے ساتھ تبادلۂ خیال میں اس پر گفتگو کی ہے کہ کس طرح مغربی ممالک یوکرین جنگ کو عالمی نظام پر حاوی ہونے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
دریں اثنا امریکہ نے کہا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ کے ماسکو دورے کے دوران جو پیغام دیا گیا وہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کے مؤقف سے الگ نہیں ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ بھارت نے جنگ کے خلاف اپنے مؤقف کا اعادہ کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ روس نے اقتصادی، سفارتی، سماجی اور سیاسی طاقت کے حامل ملک بھارت کی جانب سے یہ پیغام سنا۔
جے شنکر اور لاروف نے مذاکرات کے دوران باہمی تعلقات کی اہمیت کی نشاندہی کی۔
اس موقع پر لاروف نے کہا کہ ہم نے مشترکہ اسلحہ سازی سمیت فوجی اور تکنیکی تعاون کے امکانات پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔
فریقین نے کہا کہ دونوں ممالک میں قریبی تاریخی تعلقات ہیں جو کہ باہمی احترام اور خود کفالت پر مبنی ہیں جب کہ وہ کسی بھی جغرافیائی اتار چڑھاۂ سے متاثر نہیں ہیں۔
بھارت اور روس کے درمیان دفاعی تعلقات کے علاوہ وسیع تجارتی روابط بھی ہیں۔
روس کے وزیرِ خارجہ کے مطابق گزشتہ برس باہمی تجارت میں 130 فی صد اضافہ ہوا اور وہ 17 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ دونوں ممالک نے باہمی تجارت کو 30 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جے شنکر نے کہا کہ دونوں ملکو ں نے باہمی تجارت کو مزید فروغ دینے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، جن کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
تاہم انہوں نے باہمی تجارت کے غیر متوازن ہونے کا بھی ذکر کیا۔
ان کے بقول بھارت تجارتی عدم توازن پر فطری طور پر تشویش میں مبتلا ہے۔ اس بارے میں بھی گفتگو ہوئی اور ہم نے روس سے کہا کہ ان رکاوٹوں کو کیسے دور کیا جائے جو زیادہ سے زیادہ بھارتی برآمدات کی راہ میں حائل ہیں۔
واضح رہے کہ روس پر عائد پابندیوں کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان ادائیگی کا کوئی نظام نہیں بن سکا ہے۔
دونوں ملک روپیہ اور روبل میں ادائیگی کے سلسلے میں تبادلۂ خیال کر رہے ہیں۔
تازہ صورتِ حال میں اپریل سے جولائی کی سہ ماہی میں روس کو بھارت کی برآمدات میں 30 فی صد کی کمی واقع ہوئی ہے۔