بھارت نے اپنے خلائی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے ہفتے کے روز ایک خلائی جہاز سورج کی جانب روانہ کر دیا ہے جس کا نام آدتیہ ایل ون ہے۔
آدتیہ ایل ون کی لانچنگ ہفتے کی صبح ہوئی جسے براہ راست ٹیلی وژن پر دکھایا گیا۔ یہ منظر دیکھنے کے لیے بہت سے لوگ وہاں موجود تھے جنہوں نے دیوانہ وار خوشی کا اظہار کیا۔
بھارت کے خلائی تحقیق کے ادارے انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (آئی ایس آر او) نے راکٹ کی روانگی کے بعد اپنے ایک بیان میں لانچنگ کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ راکٹ زمین کے بیرونی خلا کی جانب بڑھ رہا ہے۔
چار مہینے کے اس سائنسی مشن کے دوران راکٹ میں نصب آلات سورج کی بیرونی پرتوں کا مشاہدہ کریں گے اور اس سے متعلق ڈیٹا زمینی مرکز کو بھیجیں گے۔
سورج کی طرف بھیجا جانے والا یہ ایسا پہلا مشن نہیں ہے۔ اس سے عشروں قبل 1960 کی دہائی میں امریکہ اور یورپی خلائی ایجنسی نے ناسا کے پائینیر پروگرام کے تحت اپنے کئی مطالعاتی مشن نظام شمسی کے مرکز میں روانہ کیے تھے۔
اس کے علاوہ جاپان اور چین بھی سورج پر تحقیق کے لیے زمین کے مدار میں اپنے مشن بھیج چکے ہیں۔
تاہم آدتیہ ایل ون کی کامیابی کی صورت میں یہ کسی بھی ایشیائی ملک کا سورج سے متعلق پہلا مشن ہو گا۔
حال ہی میں بھارت نے کامیابی کے ساتھ اپنی چاند گاڑی چندریان تھری چاند کی سطح پر اتاری تھی۔ جس سے امریکہ، روس اور چین کے بعد یہ کارنامہ سرانجام دینے والا وہ دنیا کا چوتھا ملک بن چکا ہے۔
بھارتی خلائی ادارےکے اس تازہ خلائی پروگرام کے متعلق بھارت کے ایک ماہر فلکیات سومک رائے چوہدری نے جمعے کو این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بھارتی سائنس دانوں کے لیے ایک چیلنجنگ مشن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مشن کا مقصد سورج سے بڑے پیمانے پر پلازما اور مقناطیسی توانائی کے اخراج کا مطالعہ کرناہے۔سورج سے خارج ہونے والے یہ طوفان اس قدر طاقت ور ہوتے ہیں کہ وہ زمین تک پہنچ جاتے ہیں اور سیٹلائٹس کے نظام میں خلل ڈالنے کا سبب بنتے ہیں۔
رائے چوہدری کا مزیدکہنا تھا کہ آدتیہ مشن ہمیں سورج سے اٹھنے والے طوفانوں سے پیشگی خبردار کرے گا اور ہمیں یہ بھی سمجھنے میں مدد ملے گی کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
آدتیہ ہندو میتھالوجی میں سورج دیوتا کا نام ہے۔
بھارت کے سورج مشن کی منزل سورج نہیں ہے بلکہ یہ 15 لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد سورج کے گرد گردش کرے گا۔ یاد رہے کہ یہ فاصلہ زمین اور سورج کے درمیان مجموعی فاصلے کا محض ایک فی صد ہے۔
یہ وہ فاصلہ ہے جہاں زمین اور سورج کی کشش نقل ایک دوسرے کی قوتوں کو زائل کر دیتی ہیں اور راکٹ اس مقام پر مقرر کردہ مدار میں گردش جاری رکھ سکتا ہے۔
آدتیہ کو بھارتی خلائی ادارے نے ڈیزائن کیا ہے اور اسے 320 ٹن وزنی راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا ہے۔ بھارتی سائنس دان اس سے قبل چاند اور مریخ کے اپنے مشنز میں اسی طرح کے راکٹ استعمال کر چکے ہیں۔
SEE ALSO: کامیاب لینڈنگ کے بعد بھارتی خلائی گاڑی اب چاند پر کیا کرے گی؟بھارت کا خلائی پروگرام انتہائی کم قیمت ہے اور مغربی ممالک کے مقابلے میں معمولی بجٹ سے وہ اپنی خلائی مہمات کو آگے بڑھا رہا ہے۔
بھارت نے اپنا پہلا خلائی مشن 2008 میں چاند کے مدار کی جانب روانہ کیا تھا جس کا نام سروپ تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اپنی موجودہ ٹیکنالوجی کے ساتھ انتہائی کم لاگت سے خلا میں اپنی تحقیقات جاری رکھ سکتا ہے۔ اس کے ماہر سائنس دان اور انجنئیر مغربی ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم مشاہروں پر کام کرتے ہیں۔