بھارت کی حزب اختلاف نے وزیرِ داخلہ امت شاہ کے اُس بیان کی شدید مذمت کی ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ پورے ملک میں شہریوں کے قومی رجسٹر یعنی این آر سی کو نافذ کیا جائے گا۔
حزب اختلاف نے 'این آر سی' کے عمل کو مذہب کی بنیاد پر عوام کو بانٹنے والا قدم قرار دیا ہے۔
امت شاہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ آسام میں اس عمل کو دہرایا جائے گا اور اس سے کسی بھی مذہب کے لوگوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے جب کہ حزب اختلاف نے اس بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا۔
مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ ممتا بنرجی نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ ان کی ریاست میں این آر سی نافذ نہیں ہو گا۔
انھوں نے یہ کہتے ہوئے کہ آسام میں این آر سی راجو گاندھی کے دور میں ہونے والے آسام معاہدے کا ایک حصہ تھا، زور دیا کہ اسے پورے ملک میں کبھی بھی نافذ نہیں کیا جا سکتا۔
لوک سبھا میں کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ حکومت اور حکمراں پارٹی کے لوگ معاشرے کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ این آر سی سے متعلق تمام امور پر بحث کی ضرورت ہے۔
حکمراں این ڈی اے کی ایک حلیف جماعت جنتا دل یونائٹیڈ کے پرشانت کشور نے کہا کہ 15 سے زائد ریاستیں 55 فیصد آبادی کے ساتھ ایسی ہیں جہاں کے وزرائے اعلیٰ بی جے پی سے تعلق نہیں رکھتے۔ حکومت نے ان میں سے کتنوں کے ساتھ مشورہ کیا اور کتنی ریاستیں اس معاملے میں اس کے ساتھ ہیں۔
آسام کے وزیر مالیات ہیمنت بسوا شرما نے کہا کہ آسام میں موجودہ این آر سی کو منسوخ کیا جانا چاہیے اور جب پورے ملک میں اسے نافذ کیا جائے تو اس وقت یہاں بھی یہ عمل دوہرایا جانا چاہیے۔ یاد رہے کہ آسام میں بی جے پی ہی کی حکومت ہے۔
ایک سینئر تجزیہ کار شیلیش کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک زبردست اقتصادی مندی سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں این آر سی کی بات کرنا بیجا ہے۔
ان کے مطابق شہریوں کا جو آدھار کارڈ ہے، اسی کو ہی این آر سی مان لینا چاہیے۔ لیکن چونکہ حکومت اور بی جے پی ایک خاص قسم کی سیاست کرتی ہیں اس لیے اس سے اقلیتوں کو نشانہ بنانا مقصود ہے۔
شیلیش نے مزید کہا کہ این آر سی کے نام پر مسلمانوں کے سروں پر تلوار لٹکانا ہے۔ جو مسلمان اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
اس سے قبل بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمشن USCIRF نے این آر سی کو مذہبی اقلیتوں کو ہدف بنانے اور بالخصوص مسلمانوں کو بے ریاست کر دینے کا حربہ قرار دیا۔
اس کا کہنا ہے کہ اس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی زوال پذیر ہے۔
یاد رہے کہ اگست میں آسام میں این آر سی کی حتمی فہرست جاری کی گئی تھی جس سے 19 لاکھ افراد باہر ہو گئے تھے اور اس طرح ان کی شہریت مشکوک ہو گئی تھی۔ اس پر نہ صرف بھارت میں بلکہ عالمی سطح پر بھی سخت رد عمل ظاہر کیا گیا تھا اور اس حوالے سے کہ اپنے ہی شہریوں کو غیر ملکی قرار دیا جا رہا ہے، حکومت پر شدید نکتہ چینی کی گئی تھی۔