ناموربھارتی تجزیہ کار وِنود شرما نے کہا ہےکہ پاکستان اور بھارت کو کوشش کرنی چاہیئے کہ بات چیت کی گاڑی کبھی پٹڑی سے نہ اُترے، اور باہمی مکالمے کا سلسلہ ’دھیرے دھیرے ہی سہی، لیکن چلتا رہے‘۔
اتوار کو ’وائس آف امریکہ ‘سےگفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ پاکستان بھارت رشتے مضبوط ہوجائیں تو اِس کا پورے برِ صغیر کوفائدہ ہوگا۔ اُن سے دونوں ملکوں کے درمیان جوہری تنصیبات کی فہرستوں کے تبادلے کے تناظرمیں باہمی تعلقات پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں دریافت کیا گیا تھا۔
ساتھ ہی، اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی لیڈرشپ اور میڈیا کا کام یہ ہونا چاہیئے کہ ’ایک انچ کی گفتگو کو‘ بڑھا چڑھا کر’ ایک میل دکھانے سے گریز ‘ کرے۔
اُن کے بقول: ’ہمیں لوگوں سے کہنا چاہیئے کہ دونوں ملکوں کےدرمیان معاملات پیچیدہ ہیں، جِس کےلیے انتظار اور تحمل کی ضرورت ہے۔۔۔ اور یہ کہ، دونوں ملکوں میں موجود سیاسی بحران اِس پیچیدگی کو بڑھا دیتا ہے‘۔
وِنود شرما کے مطابق سب سے پہلے ہمیں اپنے اپنے ملکوں میں رائے عامہ تیار کرنی ہوگی، تاکہ ہمارے سیاستدانوں کے لیے کچھ کرنے کی گنجائش پیدا ہو، جِس کے ذریعے، اُن کے بقول، ’تلخ رشتوں کو اچھے رشتوں میں تبدیل کیا جاسکے‘۔
بین الاقوامی امور کے ماہر، ڈاکٹر عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ نومبر 2008ء کے تناظر میں پاکستان بھارت کے درمیان مذاکرات کا عمل ایک عرصے تک رُک گیا تھا، اور مارچ 2011ء میں یہ عمل اُس وقت دوبارہ شروع ہوا جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پاکستان بھارت کرکٹ میچ دیکھنے بھارت گئے۔
اُن کے بقول، اب ہمیں معنی خیز ڈائلاگ کےلیے ماحول بڑی حد تک ہموار لگتا ہے، جس بنیاد پر امید کی جاسکتی ہے کہ 2012ء میں خاطر خواہ پیش رفت حاصل ہوگی۔
ڈاکٹر عسکری رضوی کے بقول، سال 2011ء میں پاکستان کے اندر جتنے طاقت ور حلقے ہیں، جِن میں سویلین لیڈرشپ اور فوج شامل ہے، وہ سب کے سب یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان سےتعلقات کوبہتر کرنا اچھی بات ہے۔ اُنھوں نے اِس امید کا اظہار کیا کہ نئےسال میں دونوں ملکوں کے مابین تجارت کے میدان میں اہم پیش رفت ہوسکے گی۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: