پاکستانی اراکین پارلیمنٹ کا 20 رکنی وفد بدھ کو بھارت گیا ہے جہاں ایک غیر سرکاری تنظیم کے تعاون سے دونوں ممالک کے اراکین پارلیمان مسئلہ کشمیر، پانی ، میڈیا کے کردار، تجارت اور اعتماد سازی کے لیے اقدامات سمیت مختلف اُمور پر تبادلہ خیال کریں گے ۔
اس سے قبل دونوں پڑوسی ممالک کے اراکین پارلیمنٹ کے مابین مذاکرات کا پہلا دور رواں سال جنوری میں اسلام آباد میں ہوا تھا اور دوسرا دور 18اور 19 اگست کو نئی دہلی میں ہو ر ہا ہے ۔ بھارت روانگی سے قبل پاکستانی اراکین پارلیمنٹ کے وفد میں شامل حکمران اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے اراکین نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے اور اعتماد سازی کی بحالی کی کوششوں میں مدد گار ثابت ہو گا۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ جان محمد جمالی اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی مشترکہ طور پر پاکستانی اراکین پارلیمنٹ کے وفد کی صدارت کر رہے ہیں جب کہ وفد میں شامل دیگر اراکین میں حکمران پیپلز پارٹی کے ترجمان قمرزمان کائرہ ، مسلم لیگ (ق) کے سینیڑ ایس ایم ظفر اور متحدہ قومی موومنٹ کے حیدر عباس رضوی بھی شامل ہیں۔
فیصل کریم کنڈی نے بھارت روانگی سے قبل ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا ”بھارت کے ساتھ ہمارے ایسے حساس تعلقات ہیں کہ معمولی سا غیر ضروری بیان دوطرفہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک (تعطل) پیداکر دیتا ہے ۔ ہم کوشش کریں گے کہ مستقبل میں ایسا ڈیڈلاک پیدا نا ہو ۔ ہم ایک مثبت پیغام لے کر، بڑی اُمید کے ساتھ جارہے ہیں۔ یہ باور بھی کرانا چاہتے ہیں کہ کامیابی کے ساتھ واپس لوٹیں گے۔“
مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر ایس ایم ظفر نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ دوطرفہ مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ ”اس بار پارلیمنٹرین نے سوچا ہے کہ ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ کر ہم عوام تک لے کرجائیں اور حکومتوں پر دباؤ ڈال کر فیصلہ کروانے کی کوشش کریں ۔“
پاکستانی اراکین پارلیمنٹ کا وفد بھارتی ہم منصبوں سے جن دوطرفہ اُمور پر تبادلہ خیا ل کر ے گا اُن پر دونوں ممالک کے درمیان جاری امن مذاکرات کے تحت سرکاری سطح پر بھی بات چیت جاری ہے۔ جولائی میں پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھارت کا دورہ کیا تھا اور دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے دوطرفہ امن مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے کے بعد بات چیت کا یہ عمل جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔