ہری سنگھ دہلی کے قریب گڑگاؤں کے کاروباری مرکز میں چوکیدار ہے ۔ اس کی ماہانہ تنخواہ تقریباً 150 ڈالر ہے ۔ ایک کچی بستی میں چھوٹے سے ایک کمرے کا 40 ڈالر ماہانہ کرایہ دینے کے بعد اس کے پاس بمشکل اتنے پیسے بچتے ہیں کہ وہ گھر کے لیے کھانے کا سامان خرید سکے ۔ وہ کہتا ہے’’پھل اور دودھ خریدنے کے لیے تو پیسے ہی نہیں ہوتے۔ تنخواہ دگنی ہوجائے تو پھر مکان کے کرایے ، علاج معالجے اور بیٹے کے اسکول کا خرچہ نکل سکے۔‘‘
لیکن بھارت کے منصوبہ بندی کمیشن نے غربت کا جو نیا پیمانہ مقرر کیا ہے، اس کے مطابق، ہری سنگھ کا شمار بھارت کے غریب لوگوں میں نہیں ہوگا۔
منصوبہ بندی کمیشن نے بھارت کی سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ دیہی علاقے میں جو شخص غذا، تعلیم اور صحت پر نصف ڈالر روزانہ یعنی مہینے میں 15 ڈالر خرچ کرتا ہے، اسے غریب نہیں سمجھا جائے گا۔ شہری علاقوں کے لیے غریبی کی یہ لائن کچھ اونچی ہے، یعنی 66 سینٹ روزانہ یا تقریباً 20 ڈالر ماہانہ ۔ یہ اعداد و شمار غربت کے لیے عالمی بنک کے مقرر کردہ ایک ڈالر پچیس سینٹ روزانہ کی آمدنی کے معیار سے کہیں کم ہیں۔
منصوبہ بندی کمیشن نے جو اقتصادی پالیسی ترتیب دیتا ہے، یہ معیار اس وقت مقرر کیے جب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس سے کہا کہ وہ بتائے کہ اس نے غربت کے معیار کس بنیاد پر مقرر کیے ہیں۔
لیکن بہت سے ماہرینِ معاشیات اور سرگرم کارکنوں نے کہا ہے کہ نئے معیار حقیقت کے خلاف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نئی دہلی جیسے شہر میں،66 سینٹ میں ایک پیاز، ایک آلو، کچھ چاول،ایک کیلا، ایک پینسل، ایک ایسپرین اور بس کے ایک ٹکٹ کے سوا اور کچھ نہیں خریداجا سکتا۔
جین دریز ایک ممتاز اقتصادی ماہر ہیں جو بھارت میں اقتصادی پالیسی کی تشکیل میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’ہمیں یہ تو علم ہے کہ غربت کی تعریف میں بہت کم لوگ آتے ہیں۔ لیکن جو چیز نئی اور بالکل حیران کن ہے وہ یہ دعویٰ ہے کہ غریبی کاجو پیمانہ مقرر کیا گیا ہے وہ غذا، صحت اور تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کافی ہے ۔ یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔ اسے غربت کی لکیر کے بجائے بھوک کی لکیر کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔‘‘
پلاننگ کمیشن کا کہنا ہے کہ اسے خط افلاس اس طرح قائم کرنا ہے کہ ان لوگوں کی مدد ہو سکے جو سب سے زیادہ ضرورت مند ہیں۔ حکومت کو سماجی بہبود کے لیے دستیاب محدود وسائل کا بہترین استعمال کرنا پڑتا ہے اور اس میں بہت زیادہ لوگوں کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔
بھارت کی شاندار اقتصادی ترقی کے باوجود، کروڑوں لوگ اب بھی غریب ہیں۔ کانگریس کی قیادت میں چلنے والی حکومت نے غربت کم کرنے اور روزگار،علاج معالجے، اور تعلیمی پروگراموں پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے منصوبے بنائے ہیں۔ وہ ایک قانون منظورکرنا چاہتی ہے جس کے تحت غریبوں کو سستااناج فراہم کیا جائے گا۔ وہ کم قیمت ایندھن اور کھاد کی جگہ نقد رقوم دینا چاہتی ہے ۔
لیکن سماجی کارکنوں کاکہنا ہے کہ حکومت ایسے لوگوں کی تعداد گھٹا کر جو حکومت کے سماجی بھلائی کے پروگراموں کے مستحق ہیں، اپنا بوجھ کم کر رہی ہے ۔ ناقدین میں بیراج پٹنائیک بھی شامل ہیں جو غذا کے حق کے بارے میں ایک سرکاری کمیشن کے مشیر ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’وہ اس ملک کے 70 فیصد لوگوں کو غربت دور کرنے کے پروگراموں کے فوائد سے الگ کر رہے ہیں۔ اس طرح حکومت کی طرف سے ملنے والی امداد میں کمی آ جائے گی۔ لیکن اس کا مقصد تو یہ ہوا کہ غریبوں کی تعداد ان کی حالت بہتر بنا کر نہیں، بلکہ دھوکہ دے کر کم کر دی جائے گی۔‘‘
سرکاری اندازوں کے مطابق، بھارت کی ایک اعشاریہ دو ارب آبادی میں سے 32 فیصد، یا تقریباً چالیس کروڑ لوگ غریبی کی حالت میں زندہ ہیں۔ لیکن بہت سے اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ ان اعداد و شمار سے ایک ایسے ملک میں جہاں پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کی تقریباً نصف تعداد غذائیت کی کمی کا شکار ہے، لوگوں کی محرومیوں کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا ۔
حکومت کی طرف سے مقرر کردہ نیشنل ایڈوائزری کونسل یہ کہتی رہی ہے کہ سماجی امداد تمام شہریوں کو فراہم کی جانی چاہئیے کیوں کہ ملک میں ایسا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اقتصادی ماہردریز اس کے حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک میں کچھ ریاستوں ، جیسے جنوب میں تامل ناڈو اور شمال میں ہماچل پردیش میں اس سمت میں پہلے ہی بہت اچھا کام ہو رہا ہے ۔