اتوار کے روز بھارتی زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں محرم کے ایک ماتمی جلوس پر پولیس نے کارروائی کی، جِس میں متعدد عزادار زخمی ہوگئے، جب کہ کئی ایک کو گرفتار کرلیا گیا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ بیسیوں عزادار اُس وقت زخمی ہوئے جب پولیس نے اُن کی طرف سے نکالے گئے ایک ماتمی جلوس کو منتشر کرنے کےلیے اشک آور گیس کے گولے داغے، بانس کے ڈنڈے استعمال کیے اور ٹھٹھرتی سردی کے باوجود اُن پر سرد رنگ دار پانی پھینکا۔
عہدے داروں نے عزاداروں کے خلاف طاقت کے استعمال کوجائز قرار دے دیا ، یہ کہہ کر کہ ماتمی جلوس کو نکالنے کی کوشش علاقے میں احتیاطً عائد کی گئی حفاظتی پابندیوں کو توڑتے ہوئے کی گئی تھی۔نیز، اُنھیں خدشہ تھا کہ عزا داری کی آڑ میں علیحدگی پسندوں کو فروغ دینے کی کوشش کی جاسکتی تھی اور یہ بھی ممکن تھا کہ امن دشمن عناصر تشدد پر اُتر آتے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ محرم کی آٹھویں تاریخ کی مناسبت سے سری نگر کی کُرو بازار سے ڈَل گیٹ علاقے تک نکالے جانے والے روایتی ماتمی جلوس کو روکنے کے لیے انتظامیہ نے اِن علاقوں میں بغیر کسی پیشگی اعلان کےکرفیو پابندیاں عائد کردی تھیں۔ جگہ جگہ مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں کی نفری صبح سے ہی تعینات نظر آئی، جب کہ کئی سڑکوں پر خاردار تار بچھا کر شیعہ اکثریتی علاقوں کی ناکہ بندی کی گئی تھی۔
لیکن، جب سرکردہ شیعہ راہنما مولوی مسرور عباس انصاری کی قیادت میں عزاداروں نے حفاظتی پابندیوں کو توڑتے ہوئے جلوس نکالا تو حفاظتی دستوں نے اُن کے خلاف طاقت استعمال کی۔
عزاداروں نے جواب میں پولیس پر پتھراؤ کیا۔ عہدے داروں کا کہنا ہے کہ10شہری اور ایک پولیس والا زخمی ہوگئے، جب کہ عینی گواہوں اور اسپتال ذرائع کے مطابق، زخمی ہونے والوں کی تعاد 25اور30کے درمیان ہے۔پولیس مولوی مسرود اور اُن کے کئی ساتھیوں کو پکڑ کر لے گئی۔
محرم الحرام کی آٹھویں اور دسویں تاریخ کو سری نگر میں روایتی راستوں سے ماتمی جلوس نکالنے پر گذشتہ 22برس سے پابندی عائد ہے،جب متنازعہ فی علاقے پر بھارت کے کنٹرول کے خلاف مقامی نوجوانوں نے الم بغاوت بلند کرتے ہوئے بندوق کا استعمال شروع کردیا اور شورش کو دبانے کے لیے مسلح افواج نے ایک سخت گیر مہم چھیڑ دی، جس میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں۔تاہم، اُن علاقوں میں کھلے عام عزاداری پر کوئی قدغن نہیں جہاں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے۔