راجہ تومر کے مبینہ وارث کا قطب مینار پر ملکیت کا دعویٰ

دہلی کا مشہور قطب مینار (فائل فوٹو)

دہلی میں ساکیت کی ضلع و سیشن کورٹ میں ایک شخص کنور مہیندر دھوَج پرساد سنگھ نے خود کو راجہ تومر کا وارث ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک اپیل دائر کی ہے اور عالمی شہرت یافتہ قطب مینار پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے۔ اس نے قطب مینار کے سلسلے میں عدالتی کارروائی کے دوران عرضداشتِ مداخلت داخل کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا۔

عرضداشت میں کہا گیا ہے کہ قطب مینار کا احاطہ راجہ تومر سنگھ کے خاندان کی ملکیت ہے اور حکومت اس کے بارے میں کوئی بھی حکم دینے کی مجاز نہیں ہے۔ وہ اس حاندان کا وارث ہے۔

محکمہ آثار قدیمہ اور ہندو فریقوں کی جانب سے اس دعوے کی مخالفت کی گئی۔ یہ درخواست ایسے وقت دائر کی گئی ہے جب بعض ہندو تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرکے قطب مینار کے احاطے میں واقع مسجد قوت الاسلام میں پوجا کرنے کی اجازت طلب کی ہے۔ انھوں نے یہ درخواست مبینہ طور پر مسجد میں بھگوان نرسنگھ کی مورتی برآمد ہونے کے بعد دی ہے۔

قوت الاسلام کی ملکیت کا تنازع رواں سال مئی میں اس وقت پیدا ہوا جب محکمہ آثار قدیمہ کے ایک سابق ریجنل ڈائرکٹر دھرم ویر شرما نے یہ دعویٰ کیا کہ قطب مینار کی تعمیر راجہ وکرما دتیہ نے کروائی تھی نہ کہ قطب الدین ایبک نے۔

اس موقع پر میڈیا میں یہ خبر بھی آئی تھی کہ وزارت ثقافت نے محکمہ آثار قدیمہ کو احاطے کی کھدائی کا حکم دیا ہے۔ کھدائی مسجد سے پندرہ میٹر دور مینار کے جنوب میں کی جانا تھی۔ وزارت ثقافت کے سکریٹری گووند موہن نے 21 مئی کو وہاں کا دورہ کرنے کے بعد کھدائی کا فیصلہ کیا۔ بعد میں اس خبر کی تردید کر دی گئی۔

قطب مینار


محکمہ آثار قدیمہ نے کنور مہیندر دھوَج پرساد سنگھ کی درخواست کے تحریری جواب میں کہا کہ یہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے، اسے خارج کیا جائے۔ آثار قدیمہ کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈووکیٹ سبھاش سی گپتا نے عدالت کو بتایا کہ اس درخواست کا کوئی جواز نہیں ہے۔

بعد میں گپتا نے میڈیا ادارے انڈیا ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ محفوظ یادگاروں کے بارے میں محکمہ آثار قدیمہ کا موقف واضح ہے۔ درخواست دہندہ فریق بننے کا مجاز نہیں ہے۔ اس کی درخواست میں ریاستوں میں 100 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی اراضی پر ملکیت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ گزشتہ 150سال میں ایسا دعویٰ کبھی نہیں کیا گیا، اب وہ ایسا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے۔

قطب مینار کے احاطے اور مسجد قوت الاسلام میں پوجا کی اجازت طلب کرنے والے ہندو اور جین فریقوں نے بھی اس درخواست کی مخالفت کی۔ ان کے ایک وکیل امت سچدیوا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ حکومت اور ان فریقوں کے درمیان ہے۔ کسی تیسرے کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

قطب مینار کے احاطے اور مسجد قوت الاسلام میں پوجا کی اجازت کی درخواست اور اس نئی درخواست پر اب 13 ستمبر کو سماعت ہوگی۔

بعض رپورٹس کے مطابق مہیندر دھوج پرساد سنگھ نے یہ عرضداشت معروف وکیل ایم ایل شرما کے توسط سے داخل کی ہے۔ لیکن ایم ایل شرما نے اس کی تردید کی ہے۔

SEE ALSO: امریکہ مٰیں بھارت کا یوم آزادی اور ’بابا کا بلڈوزر‘


تیس ہزاری کورٹ کے وکیل ایم ایل شرما نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مہیندر دھوج پرساد سنگھ نے ان سے درخواست داخل کرنے کے لیے کہا تھا لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔

ان کے بقول جن ہندو فریقوں نے مسجد قوت الاسلام میں پوجا کرنے کی اجازت کے لیے درخواست داخل کی ہے انھوں نے بھی ان سے رابطہ قائم کیا تھا اور یہ کہتے ہوئے کہ وہ بھی ہندو ہیں وکالت نامہ لگانے کی درخواست کی تھی۔ لیکن انھوں نے ان کی طرف سے بھی اپیل دائر کرنے سے انکار کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور وشو ہندو پریشد کے لوگ ہیں جو قطب مینار کے سلسلے میں تنازع پیدا کرکے ان کے بقول ملک کا ماحول خراب کرنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے مہیندر دھوج پرساد کے راجہ تومر کے وارث ہونے پر بھی شبہے کا اظہار کیا اور کہا کہ ابھی تک اس خاندان کا کوئی وارث سامنے نہیں آیا تھا، اچانک کہاں سے سامنے آگیا۔ انھوں نے اس معاملے کو مشکوک قرار دیا۔

قبل ازیں 21 نومبر کو سول کورٹ نے جین تیرتھنکر رشبھ دیو اور بھگوان وشنو کی جانب سے دائر اس عرضداشت کو خارج کر دیا تھا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ ان 27 ہندو اور بودھ مندروں کو بحال کیا جائے جن کو ان کے دعوے کے مطابق 1192 میں منہدم کرکے مسجد قوت الاسلام کی تعمیر کی گئی تھی۔

اس سے قبل عدالت نے کہا تھا کہ وہاں پوجا کا حق مطلق نہیں ہے۔ اس نے ہندو درخواست گزاروں کے دعوے کی قانونی بنیاد پر بھی سوال اٹھایا تھا۔

SEE ALSO: بھارت: گیان واپی مسجد کی جگہ پر کیا کبھی مندر تھا، مورخین کیا کہتے ہیں؟

اس سے پہلے کی سماعت میں محکمہ آثار قدیمہ نے دلیل دی تھی کہ قطب مینار کا احاطہ محفوظ یادگاروں میں آتا ہے اور کسی کو وہاں عبادت کرنے کا حق نہیں دیا گیا ہے۔ محکمے نے اس کی حیثیت جوں کی توں برقرار رکھی ہے اور وہاں نہ تو پوجا کی اجازت ہے اور نہ ہی نماز کی۔

محکمے کے وکیل نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ مسجد قوت الاسلام کے احاطے میں متعدد ٹوٹی ہوئی مورتیاں اور ہندو و جین مندر کی علامتیں ہیں لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس مقام پر پہلے مندر تھے۔