بھارتی پارلیمنٹ میں پیر کے روز حزب مخالف کی جانب سے ملک میں غیر ملکی ریٹیل سپر اسٹوروں کو کاروبار کرنے کی اجازت دینے پر احتجاج کے بعد اجلاس جلد ہی ملتوی کردیا گیا۔
بھارتی کابینہ نے گذشتہ ہفتے ریٹیل کا کاروبار کرنے والی عالمی سطح کی کمپنیوں کو اجازت دی تھی کہ وہ 51 فی صد حصص کے ساتھ ملک میں اپنے اسٹور کھول سکتی ہیں۔ جب کہ پرچون سطح پر کوئی ایک برانڈ پیش کرنے والی غیر ملکی کمپنیاں 100 فی صد حصص کی ملکیت رکھ سکتی ہیں۔
بھارتی عہدے داروں کا کہناہے کہ ان اصلاحات کے نتیجے میں لاکھوں نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی ، لیکن حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت ناقدین کا کہناہے کہ غیر ملکی سپراسٹوروں کو اجازت دینے کے نتیجے میں بہت سے چھوٹے دکانداروں کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑے گا، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری پیدا ہوگی۔
پیر کے روزپارلیمنٹ کے اجلاس میں حزب اختلاف کی جماعتوں اورکانگریس پارٹی میں شامل اتحادی جماعتوں کے کئی ارکان اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے پرچون کاروبار کی نئی پالیسی کے خلاف نعرے لگائے اور بینر لہرائے۔
شور شرابے کے باعث پارلیمنٹ کا اجلاس منگل تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔
بھارت کی کئی گنجان آباد ریاستوں کے ، جن میں اتر پردیش ، تامل ناڈو اور مغربی بنگال شامل ہیں، وزرائے اعلیٰ کا کہناہے کہ وہ غیر ملکی سپر اسٹوروں کو اس انداز میں کاروبار کرنے کی اجازت دینے کی مخالفت کریں گے۔
نئی پالیسی کے تحت امریکہ میں قائم وال مارٹ سمیت کئی بین اقوامی کمپنیوں کو ساڑھے چار کھرب ڈالر کی ریٹیل مارکیٹ میں کاروبار کرنے کی اجازت مل جائے گی جو پرائیویٹ شعبے کے دکانداروں کے لیے ایک ایک خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ بھارت میں زیادہ تر چھوٹی دکانیں خاندان کے افراد چلاتے ہیں۔
بھارت میں زراعت کے بعد پرچون کا شعبہ ملک میں سب سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرتا ہے۔