بھارت نے روہنگیا مسلمانوں کی اکثریت والی میانمار کی ریاست رخائن کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے میانمار سے اپیل کی ہے کہ حالات سے تحمل اور سمجھداری کے ساتھ نمٹا جانا چاہیے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ سیکورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ شہری آبادی کی فلاح و بہبود پر بھی توجہ مرکوز کی جائے۔
وزارت خارجہ کی جانب سے ہفتے کی شام کی شام جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے میانمار کے اپنے حالیہ دورے میں سیکیورٹی فورسز اور بے قصور شہریوں کی ہلاکت پر تشویش ظاہر کی تھی۔
بیان کے مطابق ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست میں تشدد کا خاتمہ ہو اور معمول کی صورت حال تیزی سے واپس آئے۔
وزیر اعظم نے اپیل کی ہے کہ امن کے احترام، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، انصاف اور وقار اور جمہوری اقدار کی بنیاد پر مسئلے کو حل کیا جائے۔
وزارت خارجہ کے مطابق وزیر اعظم کے دورے میں اس پر اتفاق ہوا ہے کہ بھارت میانمار کی حکومت کے اشتراک سے رخائن میں جاری ترقیاتی پروگراموں میں مدد فراہم کرے گا۔
یاد رہے کہ بھارت میں 40 ہزار روہنگیا مسلمان پناہ گزیں ہیں جن میں سے 16500 کے پاس اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پناہ گزیں کی جانب سے کارڈ جاری کیے گئے ہیں۔
بھارت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ”غیر قانونی“ تارکین وطن کو واپس بھیجے گا۔ حکومت کے اس فیصلے کے خلاف دو پناہ گزینوں نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی ہے جس پر عدالت نے حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس بارے میں اپنا موقف واضح کرے۔ اگلی سماعت 11 ستمبر کو ہوگی۔
اس سے قبل نئی دہلی میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر سید معظم علی نے بھارت کے سکریٹری خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کی اور روہنگیا مسلمانوں کے مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ ذرائع کے مطابق انھوں نے مسلمانوں کے ترک وطن کرکے بنگلہ دیش آنے سے اس پر پڑنے والے مالی بوجھ کے تناظر میں بنگلہ دیش کی پوزیشن واضح کی۔
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی برادری اس معاملے میں مداخلت کرے اور روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے تشدد اور ان کے انخلاءکو بند کرائے۔ انھوں نے بھارت پر بھی زور دیا کہ وہ اس بارے میں میانمار پر دباؤ ڈالے۔ بھارت کی جانب سے یہ بیان اس کے بعد ہی جاری ہوا ہے۔