|
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھارت پر اس کے اثرات کا معاملہ بھی موضوعِ بحث ہے جب کہ بھارتی وزیرِ خارجہ نے بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے تحفظ کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کیا بنگلہ دیش کی اقلیتیں خصوصاً ہندو آبادی خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگی ہے اور کیا کچھ ہندو نقل مکانی کر کے بھارت آنے پر غور کر رہے ہیں؟
مبصرین کا خیال ہے کہ شیخ حسینہ بھارت کی دوست ہیں، وہ ایک سیکولر حکومت چلا رہی تھیں اور ان کو اپنے یہاں کی اقلیتوں کے حوالے سے بھارت کی حساسیت کا احساس تھا۔
ان کے دورِ حکومت میں اقلیتوں کو تحفظ حاصل تھا۔ لیکن اب اقلیتوں پر حملے کے جو واقعات پیش آ رہے ہیں وہ اقلیتوں کے لیے تشویش کا سبب بن رہے ہیں۔
یاد رہے کہ بنگلہ دیش کی 17 کروڑ کی آبادی میں آٹھ فی صد ہندو ہیں اور ان کا ایک بڑا طبقہ روایتی طور پر شیخ حسینہ کی سیاسی جماعیت’عوامی لیگ‘ کی حمایت کرتا رہا ہے۔ وہاں 19 ہزار بھارتی بھی رہتے ہیں جن میں طلبہ کی تعداد نو ہزار ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق شیخ حسینہ کی پارٹی کو اقلیتوں کی حمایت کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ ان کے بھارت سے دوستانہ اور بہت مضبوط تعلقات رہے ہیں۔
'بنگلہ دیش میں عدم استحکام ہو تو اقلیتیں نشانہ بنتی ہیں'
نئی دہلی کے سینئر تجزیہ کار نیلانجن مکھوپادھیائے کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر ہونے والے حملے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب بھی وہاں سیاسی اتھل پتھل ہوئی ہے۔ اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ کچھ لوگ بھارت کی جانب نقل مکانی کرتے ہیں اور کچھ محفوظ مقامات پر منتقل ہو جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی حکومت نے وہاں قائم ہونے والی عبوری حکومت سے ضرور رابطہ قائم کیا ہو گا اور اس سے کہا ہو گا کہ وہ اپنے یہاں کی اقلیتوں کے تحفظ کے اقدامات کرے۔
وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے منگل کو پارلیمان میں بیان دیتے ہوئے بنگلہ دیش کی صورت حال اور بالخصوص اقلیتوں کے تحفظ کے سلسلے میں اظہارِ تشویش کیا تھا اور کہا تھا کہ بھارت اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مختلف گروپس اور تنظیموں کی جانب سے اقلیتوں کے تحفظ کے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن جب تک نظم و نسق کی بحالی نہیں ہو جاتی بھارت کو تشویش لاحق رہے گی۔
سینئر تجزیہ کار رشید قدوائی نیلانجن مکھوپادھیائے کی رائے کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب بھی بنگلہ دیش میں سیاسی رسہ کشی ہوتی ہے تو اقلیتوں پر حملے ہوتے ہیں۔ لیکن وہ اسے ایک وسیع تناظر میں بھی دیکھتے ہیں۔
وہ پارلیمان میں دیے گئے وزیرِ خارجہ کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے، جس میں انھوں نے بنگلہ دیش کے حالات میں بیرونی طاقتوں کے ہاتھ ہونے کی بات کہی تھی، کہا کہ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ بیرونی طاقتیں بھارت کو مضبوط دیکھنا نہیں چاہتیں۔
ان کے مطابق وہاں اس کی ایک تاریخ رہی ہے۔ وہ طاقتیں بنگلہ دیش کے حوالے سے بھارت میں بھی مشکلات پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ اگر بھارت شیخ حسینہ کو پناہ دیتا ہے یا یہاں رہنے دیتا ہے تو وہ طاقتیں موجودہ غصے اور ناراضی کو بھارت مخالف جذبات کو ہوا دینے میں استعمال کریں گی اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہاں کی اقلیتوں کو پریشان کیا جائے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 'ایئر انڈیا' کا ایک خصوصی طیارہ ڈھاکہ سے 205 افراد کو لے کر جن میں چھ بچے بھی ہیں، بدھ کی صبح دہلی پہنچا۔
ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ایئر انڈیا کا ایک خصوصی طیارہ ڈھاکہ میں بھارتی ہائی کمیشن کے 190 غیر ضروری عملے کو لے کر دہلی پہنچا۔ تاہم تمام سفارت کار بنگلہ دیش میں موجود ہیں اور ہائی کمیشن اپنا کام کر رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں نیلانجن مکھوپادھیائے کہتے ہیں کہ ہر ملک کو اپنے یہاں کی اقلیت کا تحفظ کرنا چاہیے۔ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے اقلیتوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کے خیال میں اقلیتوں پر حملے اس لیے ہو رہے ہیں تاکہ غیر جمہوری طاقتیں حاوی ہو جائیں۔
ان کے خیال میں اگر کوئی حکومت سیاسی فائدے کے لیے اکثریت پرستی کی سیاست کرتی ہے اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتی تو اسے افسوسناک ہی کہا جائے گا۔ اس حوالے سے انھوں نے بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا بھی ذکر کیا۔
'بھارت، بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا'
رشید قدوائی ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ اگرچہ بھارت نے وہاں کی اقلیتوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ لیکن وہ وہاں کے معاملات میں مداخلت کر سکتا ہے اور نہ ہی وہ ایسا کرنا چاہتا ہے۔
ان کے مطابق بھارت کی اپوزیشن مختلف امور میں عام طور پر حکومت کے خلاف مؤقف اختیار کرتی رہی ہے۔ لیکن اس معاملے میں سب حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے تعلق سے پورا ملک فکرمند ہے۔
واضح رہے کہ جب منگل کی صبح کو وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے بنگلہ دیش کے معاملے پر کل جماعتی اجلاس طلب کیا اور سیاسی جماعتوں کو وہاں کی صورت حال بتائی تو کانگریس رہنما اور لوک سبھا میں قائدِ حزبِ اختلاف راہل گاندھی نے اقلیتوں کے تحفظ کے سلسلے میں استفسار کیا۔
ادھر بنگلہ دیش کی اقلیتوں کی ایک تنظیم ’دی بنگلہ دیش ہندو بدھشٹ کرسچین یونٹی کونسل‘ نے منگل کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیر کے بعد سے اب تک 200-300 گھروں اور تجارتی اداروں کو، جو کہ زیادہ تر ہندوؤں کے ہیں ہدف بنایا گیا ہے۔
تنظیم کے جنرل سیکریٹری رانا داس گپتا کا کہنا ہے کہ 15 سے 20 ہندو مندروں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور تقریباً 40 افراد زخمی ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات حسینہ کے مستعفی ہونے سے چند گھنٹے قبل ہی شروع ہو گئے تھے۔ حالانکہ ان واقعات میں کسی کی ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔
نئی دہلی کے ایک نشریاتی ادارے ’نیوز 18‘ کی رپورٹ کے مطابق کھلنہ ڈویژن کے مہرپور میں ایک اِسکان (ISKCON) مندر میں توڑ پھوڑ کی گئی اور اسے نذر آتش کر دیا گیا۔
اسکان کے ترجمان یودھشٹر گووندا داس نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کو مذکورہ مندر کے نذر آتش کیے جانے کی اطلاع ملی ہے۔ ان کے مطابق بھگوان جگن ناتھ، بلدیو اور سبھدرا دیوی کی مورتیوں کو توڑا اور جلایا گیا ہے۔ مندر کے احاطے میں رہنے والے تین عقیدت مندوں نے فرار ہو کر اپنی جان بچائی۔
ان واقعات کی روشنی میں بھارت کی حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے بعض رہنما، بابا رام دیو، ایک معروف ہندو مذہبی شخصیت بابا سد گرو اور ایک ہندوتو نواز تنظیم ’وشو ہندو پریشد‘ (وی ایچ پی) نے بنگلہ دیش میں ہندوؤں سمیت تمام اقلیتوں کے تحفظ کے لیے حکومت سے قدم اٹھانے کی اپیل کی ہے۔
مغربی بنگال کے بی جے پی کے صدر سوویندو ادھیکاری نے وہاں سے ہندوؤں کو بھارت لا کر ان کو شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے کے تحت شہریت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
رشید قدوائی کہتے ہیں کہ ان مطالبات پر عمل کرنے سے پیچیدگی میں اضافہ ہو گا۔ بھارت کو سفارتی طریقوں سے حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ادھر دوسری طرف ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ بنگلہ دیش طلبہ اور مسلم رہنما مندروں اور گرجا گھروں کا تحفظ کر رہے ہیں۔ ایسی ویڈیوز وائرل ہیں جن میں طلبہ کے گروپس کو اقلیتوں کے مذہبی مقامات کے باہر بغرض حفاظت دیکھا جا سکتا ہے۔
طلبہ کی ایک تنظیم کے ایک ذمہ دار رسیل احمد نے بنگلہ ٹری بیون سے گفتگو میں کہا کہ شرپسند عناصر طلبہ کی تحریک کو غلط ثابت کرنے کے لیے سرکاری و عوامی املاک پر حملے کر رہے ہیں۔