سینکڑوں برس سے ، کروڑوں ہندو مقدس شہر واراناسی میں جسے بنارس بھی کہتے ہیں، دریائے گنگا میں اشنان کے لیے آتے رہے ہیں۔ لیکن عورتوں کے ایک گروپ کے لیے، گنگا کے پانی میں اشنان کی خصوصی اہمیت ہے ۔ ان کا سفر نئی دہلی میں، سولابھ انٹرنیشنل سوشل سروس آرگنائزیشن کے ہیڈ کوارٹرز سے شروع ہوتا ہے ۔
یہ ان عورتوں کے لیے پناہ گاہ ہے جنہیں ہندو مذہب کے ذات پات کے نظام میں، سب سے نیچا مقام حاصل ہے۔ ہزاروں برس سے، ان عورتوں اور ان کے اچھوت آباؤاجداد کے پاس روزی کمانے کا اس کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ وہ ہر صبح لوگوں کے گھروں سے انسانی فضلے کو اپنے ہاتھوں سے اٹھائیں، اور اسے اپنے سرپر لاد کر ٹھکانے لگانے کے لیے لے جائیں۔
اوشا چمپور بھی بچپن سے یہی کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’میں سات برس کی تھی جب میں نے اپنی ماں کے ساتھ جانا شروع کر دیا تا کہ میں دیکھوں کہ وہ غلاظت کس طرح صاف کرتی ہے اور یہ سیکھوں کہ مجھے یہ کام کس طرح کرنا ہے ۔ ماں گندگی کے ٹوکرے سر پر رکھ کر لے جاتی اور ایک دن مجھے بھی یہی کام کر نا تھا۔ میرے ہاتھ اس وقت اتنے چھوٹے تھے کہ میں جھاڑو بھی نہیں پکڑ سکتی تھی۔ ماں نے میرے لیے ایک چھوٹی سی جھاڑو بنا دی تھی۔‘‘
بعض علاقوںمیں ہاتھوں سے انسانی فضلے کو اٹھانے کا کام غیر ضروری ہوتا جا رہا ہے ۔ اس کی وجہ صفاَئی ستھرائی کا وہ انقلابی کام ہے جو بندیش ور پاٹھک نے شروع کیا ہے۔ انھوں نے ماحول کو آلودگی سے محفوظ رکھنے والا، ایک انڈر گراؤنڈ ٹوائلٹ سسٹم بنایا ہے جسے انھو ں نے سولابھ کا نام دیا ہے۔ سولابھ کا مطلب ہے آسان ۔ اس کم خرچ سسٹم میں انسانی فضلہ خشک کھاد اور ایندھن میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ہر روز اس کی صفائی بھی نہیں کرنی پڑتی۔
کئی عشروں سے پاٹھک ہندو معاشرے میں اچھوتوں کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کرنے کی جدو جہد کر رہے ہیں۔ انہیں وہ واقعہ یاد ہے جس نے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ایک اچھوت لڑکے پر ایک بیل نے حملہ کیا اور سب لوگ کھڑے دیکھتے رہے ۔ وہ کہتے ہیں’’ہم اسے ہسپتال لے گئے ، اور وہ مر گیا۔ اس وقت، میں نے قسم کھائی کہ میں مہاتما گاندھی کے خوابوں کو حقیقت بناؤں گا۔‘‘
پاٹھک اب ان عورتوں کو چھوت چھات کی ذلت سے نجات اور زندگی میں پہلی بار کلاس روم میں تعلیم حاصل کرنے کے تجربے کا موقع فراہم کرتے ہیں
’’میرا نام ڈولی پاروانا ہے۔ میں ٹونک، راجستھان میں رہتی ہوں۔ میں 2008 میں سولابھ میں شامل ہوئی تھی۔ مجھے انگریزی پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ میں روز انگریزی اخبار پڑھتی ہوں۔‘‘
سولابھ کی ایک انگلش ٹیچر کہتی ہیں کہ ان کے تمام طالب علموں کو پڑھنے کا شوق ہے ۔’’یہ بچے ایسے علاقوں سے آئے ہیں جہاں تعلیم کا نام و نشان نہیں ہے۔ یہ بڑے ذہین اور ہونہار ہیں۔ یہاں عمر کی کوئی قید نہیں۔ میں ایسی عورتوں سےبھی ملتی ہوں جن کی عمر 67 سال ہے۔ وہ آتی ہیں اور بڑی عاجزی سے کہتی ہیں کہ مجھے اپنا نام لکھنا نہیں آتا۔ کیا آپ مجھے نام لکھنا سکھا دیں گی؟ اپنا نام خود لکھ کر ان کی آنکھوں میں جو چمک آتی ہے، اسے دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔‘‘
سولابھ کے بانی، پاٹھک کو امید ہے کہ سارا بھارت ان عورتوں سے یہ سیکھ سکتا ہے کہ ماضی کی زنجیروں کو کیسے توڑا جائے۔ وہ انہیں پورے بھارت میں اور دنیا کے دوروں پر لے جاتے ہیں۔
اس تازہ ترین دورے میں، وہ ہندوؤں کے مقدس مندروں میں عبادت کرتی ہیں۔ وہ برہمنوں کے ساتھ بیٹھتی ہیں جو انہیں آشیر باد دیتے ہیں۔ پاٹھک کہتےہیں’’آج بھی بھارت میں 20 سے 30 کروڑ لوگ ایسے ہیں جنہیں دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی اجازت نہیں ہے ۔ اگر آپ گاؤں میں جائیں، تو دیکھیں گے کہ وہ سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے۔‘‘
سولابھ سے اونچی ذات کے ہندوؤں کے رویوں میں بتدریج تبدیلی آ رہی ہے ۔ صفائی ستھرائی کے بہتر انتظامات سے وہ حالات جن سے چھوت چھات کو فروغ ملا تھا، تبدیل ہو رہےہیں۔ لیکن رضارکار کہتے ہیں کہ ابھی بہت کام باقی ہے ۔ پانچ ہزار پرانے رسم و رواج کو بدلنا آسان نہیں۔