بھارت نے فرانس سے 36 رَفال لڑاکا طیاروں کی خریداری کے اربوں ڈالر مالیت کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔
معاہدے پر نئی دہلی میں بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر اور ان کے فرانسیسی ہم منصب جین ییوس لی ڈرائن نے دستخط کیے۔
رَفال طیاروں کی خریداری کا یہ سب سے بڑا معاہدہ بتایا جاتا ہے جس کی مالیت آٹھ ارب 80 کروڑ ڈالر ہے۔ گزشتہ سال مصر نے اسی ساخت کے 25 لڑاکا طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔
ان طیاروں کی فراہمی میں گو کہ کچھ وقت لگ سکتا ہے لیکن اسے بھارت کی فضائی فورس کی استعداد کار بڑھانے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارت کے پاس میراج 2000 طیاروں کے علاوہ روسی ساختہ مگ 21 طیارے بھی ہیں لیکن ان روسی طیاروں کو ان کی تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے "اڑتے ہوئے تابوت" قرار دیا جاتا رہا ہے کیونکہ حالیہ برسوں میں یہ جہاز متعدد حادثات کا باعث بن چکے ہیں۔
گو کہ رَفال طیاروں کی خریداری کے لیے بھارت کے فرانس کے ساتھ ایک عرصے سے مذاکرات جاری تھے لیکن یہ معاہدہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب بھارت کے اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ماضی کی نسبت شدید تناؤ دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان نے باضابطہ طور پر اس معاہدے پر کوئی ردعمل تو ظاہر نہیں کیا لیکن اسلام آباد یہ کہتا آیا ہے کہ دو خودمختار ملکوں کے مابین ہونے والے معاہدوں پر وہ معترض نہیں لیکن اگر اس کے خطے اور پاکستان کی سلامتی پر اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہو تو اسے اس پر تحفظات ہوں گے۔
رواں ماہ ہی امریکہ کے ساتھ بھارت کے ایک دفاعی معاہدے پر بھی پاکستان کا کہنا تھا کہ وہ خطے میں اسلحے کی دوڑ میں شامل تو نہیں ہونا چاہتا لیکن وہ اپنی کم سے کم دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے اقدام ضرور کرے گا۔
پاکستانی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل اور دفاعی تجزیہ کار امجد شعیب کہتے ہیں کہ خطے میں اسلحے کی دوڑ کے خدشات موجود ہیں جو کہ دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد میں نہیں۔
"ہمارا دفاعی بجٹ تقریباً پونے آٹھ ارب ڈالر تک تھا اور بھارت کا بجٹ 42 ارب ڈالر تھا تو اس صورتحال میں خطے میں توازن کی بات پاکستان ہمیشہ کرتا رہا ہے کہ خطے میں طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے اور اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو پھر پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا، لیکن یہ خطے کے عوام کے لیے بہتر نہیں کیونکہ اس سے جو خرچہ عوام کی بھلائی پر ہونا چاہیے وہ دفاع پر ہو جائے گا۔"
لیکن دفاعی امور کی ایک اور تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ دفاعی ضروریات کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہر ملک کو ہوتی ہے اور اس میں اسلحے کی دوڑ شروع کرنا مناسب نہیں۔
"میرا نہیں خیال اس (معاہدے) سے اسلحے کی دوڑ شروع ہونی چاہیے کیونکہ جوہری دفاع کے بعد پاکستان اور بھارت اپنی فوجوں کو جدید تو بنائیں گے لیکن ردعمل میں (اسلحے کی) خریداری کی ضرورت نہیں۔"
پاکستان بھی امریکہ سے آٹھ ایف سولہ لڑاکا طیارے خرید رہا تھا لیکن رواں سال کے اوائل میں کانگریس کی طرف سے ان کے لیے زراعانت روکے جانے کے بعد یہ طیارے فی الحال پاکستان کو حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔
پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنی فضائیہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے متبادل ذرائع سے استفادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔