حکومتِ بھارت نےمبینہ طورپرقابلِ اعتراض مضامین اورتصاویرکی اشاعت کےسلسلےمیں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کےخلاف قانونی کارروائی کی اجازت دے دی ہے، جِس کےبعد دہلی کی ایک عدالت نے فیس بک، گوگل، مائکرو سافٹ، یاہو انڈیا اور یوٹیوب جیسے سائٹس کے ذمہ داروں کو سمن جاری کرکے 13مارچ کوعدالت میں حاضر ہونے کی ہدایت کی ہے۔
اُس نے وزارتِ خارجہ سے کہا ہے کہ اِس بات کو یقینی بنائے کی غیر ملکی کمپنیوں کے ذمہ داروں کو سمن تعمیل کرائی جا سکیں۔
عدالت نے یہ ہدایت فیس بک انڈیا کے وکیل کی اِس دلیل کے بعد دی ہے کہ جِن 21کمپنیوں کو ملزم بنایا گیا ہے اُن میں سے 10سے زیادہ کمپنیاں غیر ملکی ہیں اور عدالت کو اُن کمپنیوں کو سمن جاری کرنا چاہیئے۔
عدالت نے یہ کارروائی ایک صحافی وِنے رائے کی عذرداری پر سماعت کے دوران کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان سائٹس پر حضرت عیسی (عہ)، پیغمرِ اسلام (صلعم) اور ہندو دیوی دیوتاؤں کی شان میں گستاخیاں کی گئی ہیں۔ گوگل اور فیس بک نے ذیلی عدالت کی کارروائی کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ پیر کے روز اُس پر سماعت ہوگی۔
ایک روز قبل دہلی ہائی کورٹ نے بھی انتباہ دیا تھا کہ اگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر سے قابلِ اعتراض، اشتعال انگیز اور فحش مواد نہیں ہٹایا گیا تو بھارتی حکومت چین کی مانند اِن پر پابندی عائد کر سکتی ہے۔
گذشتہ ماہ مرکزی وزیر کپیل سبل نے بھی ان سائٹس کے ذمہ داروں کوبلا کر قابلِ اعتراض مواد پرناراضگی جتائی تھی اور اُسے ہٹا نے کو کہا تھا جس پر اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے پاس کوئی ایسا طریقہٴ کار نہیں ہے کہ وہ عوام کے ذریعے پوسٹ کیے جانے والے مواد کو روک سکیں۔