امریکہ اور بھارت نے دفاع کے شعبوں میں تعاون کے دس سالہ دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت دونوں ملک دفاعی شعبوں میں نئی ٹیکنالوجی کو فروغ دیں گے۔
دونوں ملکوں نے ایک دوسرے معاہدہے پر بھی اتفاق کیا جس میں بھارتی فوجیوں کو کیمیائی اور حیاتیاتی جنگ میں محفوظ رہنے کے ساز و سامان اور ٹیکنالوجی فراہم کی جائے گی۔
ان معاہدوں پر امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر کے دورہ بھارت کے دوران دستخط ہوئے ہیں۔
بھارت کے روایتی حریف پاکستان کی طرف سے ان معاہدوں پر تاحال کوئی باضابطہ ردعمل تو سامنے نہیں آیا لیکن قانون سازوں اور مبصرین نے اس معاہدے کو پاکستان کے لیے باعث تشویش قرار دیا ہے۔
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے ممبر رانا محمد افضل خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان دوسرے ممالک کے باہمی تعلقات پر اعتراض نہیں کرتا تاہم اگر بھارت کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے تو پاکستان کے لیے یہ باعث تشیوش ہے۔
"پاکستان کی پالیسی ہے کہ کوئی ملک دوسرے کے ساتھ کس طرح تعلقات بناتا ہے ہم اس پر اعتراض نہیں کرتے لیکن اگر بھارت کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے جو پاکستان کی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے مجبوری بن جائے تو اس پر ہم کو تشویش ہوتی ہے پاکستان کی حکومت اس پر غور کرے گی"۔
امریکہ بھارتی فوج کو اسلحہ فراہم کرنے والے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے اور حالیہ برسوں میں یہ بات نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دوسرے بڑے ممالک کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہے۔
دفاعی امور کے ماہر طلعت مسعود کہتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی بھی معاہدہ جس سے بھارت کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہو، اس کا پاکستان پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔
’’ظاہر ہے جب تک پاکستان اور بھارت کے تعلقات ٹھیک نہیں ہوتے۔۔۔۔ اگر (بھارت) کی دفاعی اور اسٹریٹیجک صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا منفی اثر پاکستان پر بھی پڑتا ہے۔۔۔۔ اور پاکستان کو اس پر بہت تشویش رہتی ہے‘‘۔
طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ اس کے تعلقات امریکہ سے اچھے رہیں۔ تاہم ان کے بقول امریکہ کو بھی پالسی میں توازن رکھنا چاہیئے۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان حالیہ کچھ عرصے میں تعلقات میں بہتری آئی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ نے حال ہی میں پاکستان کو فوجی ساز و سامان کے لیے ایک ارب ڈالر کی معاونت بھی فراہم کی ہے۔