خواتین کے حقوق کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے جب کبھی اس قسم کا کوئی جرم ہوا ہے، تو صرف عورتوں کے گروپ ہی شور مچاتے رہے ہیں اور انصاف کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور کوئی سامنے نہیں آتا تھا ۔ لیکن آج ہر کوئی انصاف مانگ رہا ہے۔
نئی دیلی —
نئی دہلی میں ایک 23 سالہ لڑکی کی وحشیانہ اجتماعی زیادتی کے واقعے کے ایک مہینے بعد، بھارت میں عورتوں کے خلاف جنسی تشدد کے بارے میں نیا شعور بیدار ہوا ہے، اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں زور شور سے بحث ہو رہی ہے۔ بھارت میں نوجوانوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیے ہیں اور ملک میں عورتوں کے ساتھ جاری بد سلوکی کا مسئلہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔
گذشتہ مہینے نئی دہلی میں فزیو تھریپی کی ایک طالبہ کی وحشیانہ اجتماعی زیادتی پر جتنی شدت سے اور جتنے بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے، اس پر بہت سے لوگوں کو حیرت ہوئی۔
شہری علاقوں میں رہنے والے نوجوان، پڑھے لکھے، متوسط طبقے کے لوگوں نے نہ صرف اس جرم کے لیے سخت سزا کا مطالبہ کیا بلکہ بھارت میں عورتوں کے ساتھ عموماً جس قسم کا برتاؤ کیا جاتا ہے، اس میں تبدیلی کی بھی بات کی اور انھوں نے ایک ایسے مسئلے کی تشہیر کی جس کے بارے میں بہت کم بات کی جاتی ہے، یعنی عورتوں کے خلاف جنسی تشدد۔
رنجنا کماری نئی دہلی کے سینٹر فار سوشل ریسرچ کی سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ نوجوانوں نے جس شدت سے اپنے غصے کا اظہار کیا اس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔
’’اس سے پہلے جب کبھی اس قسم کا کوئی جرم ہوا ہے، تو صرف عورتوں کے گروپ ہی شور مچاتے رہے ہیں اور انصاف کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور کوئی سامنے نہیں آتا تھا۔ لیکن آج ہر کوئی انصاف مانگ رہا ہے اور جو ش و جذبے سے بھرپور ہے۔ اُمید یہ کرنی چاہیئے کہ سماجی انصاف کی یہ مہم جاری رہے گی۔‘‘
جنسی تشدد کا مسئلہ بھارت کے تمام دیہی اور شہری علاقوں میں پھیلا ہوا ہے ۔ گاؤں میں بے آبروئی کے واقعات پر بدنامی کے ڈر سے پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ نسبتاً جدید شہری علاقوں میں بھی دقیانوسی خیالات عام ہیں۔ بہت سے لوگ جنسی طور پر پریشان کیے جانے کے واقعات کا الزام بھارت کے روایتی کلچر پر مغربیت کے اثرات پر ڈالتے ہیں۔ آپ اکثر اس قسم کی باتیں سنیں گے کہ عورتوں کو آبرو ریزی جیسے جرائم سے بچنے کے لیے، بھڑکیلے کپڑے نہیں پہننے چاہیئں یا دیر تک باہر نہیں رہنا چاہیئے۔
گذشتہ مہینے کی اجتماعی زیادتی کے واقعے سے اس قسم کے رویے اور زیادہ سخت ہو رہے ہیں۔ کئی گاؤں کی کونسلوں نے لڑکیوں کو موبائل فون استعمال کرنے یا شادی بیاہ کی تقریبوں میں رقص کی ممانعت کر دی ہے۔ دہلی میں پولیس نے عورتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کالج کی کلاسوں کے بعد سیدھی اپنے گھر چلی جائیں۔ اس پر خاصی لے دے ہو رہی ہے۔
لیکن شہری، تعلیم یافتہ طبقہ یہ مطالبہ کرنے میں پیش پیش ہے کہ عورتوں اور ان کی حفاظت کے بارے میں اندازِ فکر کو تبدیل کیا جائے۔ اس سلسلے میں یہ ہیں کچھ لوگوں کے خیالات:
اگر آپ کوئی شارٹ اسکرٹ، یا شارٹس پہنے ہوئے جا رہی ہیں، اور اگر 50 آدمی کھڑے ہیں، تو ان میں 45 آپ کو گھورنے لگیں گے۔
میں دہلی میں خود کو بالکل محفوظ نہیں سمجھتی۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کی بے حرمتی کی وجہ خود یہ لڑکیاں ہیں۔ اگر یہ مختصر لباس پہنتی ہیں تو لڑکوں کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ مردوں میں تبدیلی آنی چاہیئے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے۔
لوگوں کی سوچ کا انداز بدلنا ضروری ہے، لیکن اس میں برسوں لگیں گے۔
عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک صرف جنسی تشدد تک محدود نہیں ہے۔ لڑکیوں کو اکثر لڑکوں کے مقابلے میں کھانے کو کم دیا جاتا ہے اور انہیں تعلیم بھی کم ملتی ہے۔ لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینے کی وجہ سے، لڑکیوں کی جنین کا پتہ چلنے پر حمل ضائع کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح نوزائیدہ بچوں میں لڑکوں کی تعداد زیادہ اور لڑکیوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔
رنجنا کماری کہتی ہیں کہ عورتوں پر تشدد ایک بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ ملک کے بیشتر حصے میں، سماجی رویے دقیانوسی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’گھروں میں عورتوں پر تشدد عام ہے۔ انڈین فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق، ہر تیسری عورت پر تشدد ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ذہنیت ہی یہ ہے کہ عورتوں کو کنٹرول کیا جائے اور ان پر ظلم توڑے جائیں۔ اصلاح کا عمل گھرانے سے اور معاشرے سے شروع کرنا ہو گا۔ عورتوں کو عزت و احترام ملنا چاہیئے اور اندازِ فکر میں تبدیلی لا کر ہی ہم جرائم کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔
ماہرینِ عمرانیات کہتے ہیں کہ سڑکوں پر ہونے والے حالیہ احتجاج، صرف اجتماعی زیادتی کے بارے میں نہیں تھے۔ ان سے لوگوں کے بڑھتے ہوئے غصے اور ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے۔ بھارت ایسا ملک ہے جہاں بہت بڑا تعلیم یافتہ، متوسط طبقہ وجود میں آیا ہے، لیکن نظامِ حکومت بہت ناقص ہے، پولیس کا عملہ لوگوں کے مسائل کے معاملے میں بے حس ہے، اور قانونی نظام انتہائی سست ہے جس کی وجہ سے انصاف کے حصول میں بہت دیر لگ جاتی ہے۔
نئی دہلی میں ماہرِ عمرانیات دیپنکر گپتا کہتے ہیں کہ برسوں سے لوگوں کی شکایتوں کا لاوا اندر ہی اندر پک رہا تھا جو اجتماعی زیادتی کے اس واقعے سے پھٹ پڑا۔ نام نہاد سیاستدانوں کے طبقے اور عام لوگوں کے درمیان اجنبیت کی خلیج وسیع ہوتی گئی ہے۔
اب تک کوئی منظم تحریک موجود نہیں ہے۔ عام لوگ ناراض ہیں اور وہ کرب کے عالم میں چیخ رہے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ کیا راستہ اختیار کریں۔
فی الحال لوگوں کی توجہ آبرو ریزی اور جنسی تشدد پر ہے۔ پورے ملک میں ، جن کیسوں کو شاید ہی کبھی اخبارات کے پہلے صفحے پر جگہ ملتی ہو، اب ان کی تفصیلی رپورٹنگ ہو رہی ہے ۔ لیکن سماجی کارکنوں نے انتباہ کیا ہے کہ عورتوں کے بارے میں رویے تبدیل ہونے میں وقت لگے گا۔
گذشتہ مہینے نئی دہلی میں فزیو تھریپی کی ایک طالبہ کی وحشیانہ اجتماعی زیادتی پر جتنی شدت سے اور جتنے بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے، اس پر بہت سے لوگوں کو حیرت ہوئی۔
شہری علاقوں میں رہنے والے نوجوان، پڑھے لکھے، متوسط طبقے کے لوگوں نے نہ صرف اس جرم کے لیے سخت سزا کا مطالبہ کیا بلکہ بھارت میں عورتوں کے ساتھ عموماً جس قسم کا برتاؤ کیا جاتا ہے، اس میں تبدیلی کی بھی بات کی اور انھوں نے ایک ایسے مسئلے کی تشہیر کی جس کے بارے میں بہت کم بات کی جاتی ہے، یعنی عورتوں کے خلاف جنسی تشدد۔
رنجنا کماری نئی دہلی کے سینٹر فار سوشل ریسرچ کی سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ نوجوانوں نے جس شدت سے اپنے غصے کا اظہار کیا اس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔
’’اس سے پہلے جب کبھی اس قسم کا کوئی جرم ہوا ہے، تو صرف عورتوں کے گروپ ہی شور مچاتے رہے ہیں اور انصاف کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور کوئی سامنے نہیں آتا تھا۔ لیکن آج ہر کوئی انصاف مانگ رہا ہے اور جو ش و جذبے سے بھرپور ہے۔ اُمید یہ کرنی چاہیئے کہ سماجی انصاف کی یہ مہم جاری رہے گی۔‘‘
جنسی تشدد کا مسئلہ بھارت کے تمام دیہی اور شہری علاقوں میں پھیلا ہوا ہے ۔ گاؤں میں بے آبروئی کے واقعات پر بدنامی کے ڈر سے پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ نسبتاً جدید شہری علاقوں میں بھی دقیانوسی خیالات عام ہیں۔ بہت سے لوگ جنسی طور پر پریشان کیے جانے کے واقعات کا الزام بھارت کے روایتی کلچر پر مغربیت کے اثرات پر ڈالتے ہیں۔ آپ اکثر اس قسم کی باتیں سنیں گے کہ عورتوں کو آبرو ریزی جیسے جرائم سے بچنے کے لیے، بھڑکیلے کپڑے نہیں پہننے چاہیئں یا دیر تک باہر نہیں رہنا چاہیئے۔
گذشتہ مہینے کی اجتماعی زیادتی کے واقعے سے اس قسم کے رویے اور زیادہ سخت ہو رہے ہیں۔ کئی گاؤں کی کونسلوں نے لڑکیوں کو موبائل فون استعمال کرنے یا شادی بیاہ کی تقریبوں میں رقص کی ممانعت کر دی ہے۔ دہلی میں پولیس نے عورتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کالج کی کلاسوں کے بعد سیدھی اپنے گھر چلی جائیں۔ اس پر خاصی لے دے ہو رہی ہے۔
لیکن شہری، تعلیم یافتہ طبقہ یہ مطالبہ کرنے میں پیش پیش ہے کہ عورتوں اور ان کی حفاظت کے بارے میں اندازِ فکر کو تبدیل کیا جائے۔ اس سلسلے میں یہ ہیں کچھ لوگوں کے خیالات:
اگر آپ کوئی شارٹ اسکرٹ، یا شارٹس پہنے ہوئے جا رہی ہیں، اور اگر 50 آدمی کھڑے ہیں، تو ان میں 45 آپ کو گھورنے لگیں گے۔
میں دہلی میں خود کو بالکل محفوظ نہیں سمجھتی۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کی بے حرمتی کی وجہ خود یہ لڑکیاں ہیں۔ اگر یہ مختصر لباس پہنتی ہیں تو لڑکوں کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ مردوں میں تبدیلی آنی چاہیئے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے۔
لوگوں کی سوچ کا انداز بدلنا ضروری ہے، لیکن اس میں برسوں لگیں گے۔
عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک صرف جنسی تشدد تک محدود نہیں ہے۔ لڑکیوں کو اکثر لڑکوں کے مقابلے میں کھانے کو کم دیا جاتا ہے اور انہیں تعلیم بھی کم ملتی ہے۔ لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینے کی وجہ سے، لڑکیوں کی جنین کا پتہ چلنے پر حمل ضائع کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح نوزائیدہ بچوں میں لڑکوں کی تعداد زیادہ اور لڑکیوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔
رنجنا کماری کہتی ہیں کہ عورتوں پر تشدد ایک بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ ملک کے بیشتر حصے میں، سماجی رویے دقیانوسی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’گھروں میں عورتوں پر تشدد عام ہے۔ انڈین فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق، ہر تیسری عورت پر تشدد ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ذہنیت ہی یہ ہے کہ عورتوں کو کنٹرول کیا جائے اور ان پر ظلم توڑے جائیں۔ اصلاح کا عمل گھرانے سے اور معاشرے سے شروع کرنا ہو گا۔ عورتوں کو عزت و احترام ملنا چاہیئے اور اندازِ فکر میں تبدیلی لا کر ہی ہم جرائم کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔
ماہرینِ عمرانیات کہتے ہیں کہ سڑکوں پر ہونے والے حالیہ احتجاج، صرف اجتماعی زیادتی کے بارے میں نہیں تھے۔ ان سے لوگوں کے بڑھتے ہوئے غصے اور ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے۔ بھارت ایسا ملک ہے جہاں بہت بڑا تعلیم یافتہ، متوسط طبقہ وجود میں آیا ہے، لیکن نظامِ حکومت بہت ناقص ہے، پولیس کا عملہ لوگوں کے مسائل کے معاملے میں بے حس ہے، اور قانونی نظام انتہائی سست ہے جس کی وجہ سے انصاف کے حصول میں بہت دیر لگ جاتی ہے۔
نئی دہلی میں ماہرِ عمرانیات دیپنکر گپتا کہتے ہیں کہ برسوں سے لوگوں کی شکایتوں کا لاوا اندر ہی اندر پک رہا تھا جو اجتماعی زیادتی کے اس واقعے سے پھٹ پڑا۔ نام نہاد سیاستدانوں کے طبقے اور عام لوگوں کے درمیان اجنبیت کی خلیج وسیع ہوتی گئی ہے۔
اب تک کوئی منظم تحریک موجود نہیں ہے۔ عام لوگ ناراض ہیں اور وہ کرب کے عالم میں چیخ رہے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ کیا راستہ اختیار کریں۔
فی الحال لوگوں کی توجہ آبرو ریزی اور جنسی تشدد پر ہے۔ پورے ملک میں ، جن کیسوں کو شاید ہی کبھی اخبارات کے پہلے صفحے پر جگہ ملتی ہو، اب ان کی تفصیلی رپورٹنگ ہو رہی ہے ۔ لیکن سماجی کارکنوں نے انتباہ کیا ہے کہ عورتوں کے بارے میں رویے تبدیل ہونے میں وقت لگے گا۔