بھارتی فوج اور دوسرے سرکاری دستوں نے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس ماہ کے دوراں شورش زدہ وادی کشمیر کے مختلف علاقوں بالخصوص کلگام، اننت ناگ، شوپیان اور پُلوامہ اضلاع اور جموں کے کشتواڑ ضلعےمیں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف تقریباً ڈیڑھ درجن مرتبہ 'کارڈن اینڈ سرچ آپریشن' کیا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ اُن دیہات اور علاقوں کو محاصرے میں لینے کے بعد تلاشی کی کارروائی شروع کی گئی، جہاں حفاظتی دستوں کو عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی یا اس کا شُبہ تھا۔
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ چھہ دن کے دوران اس طرح کے آپریشنز میں دس مشتبہ عسکریت پسندوں اور ان کے دو معاونین کو ہلاک کیا گیا۔ "دہشت گردوں کے معاونین" قرار دیے گیے رشتے داروں نے پولیس حکام کے اس دعوے کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ ''وہ نہتے عام شہری تھے، جنہیں بلا وجہ اور بے دردی کے ساتھ ہلاک کیا گیا''۔
وادی کشمیر میں تازہ جھڑپ شوپیان کے ملہورہ گاؤں میں جاری بتائی جاتی ہے۔ سری نگر میں بھارتی فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا "جھڑپ منگل کی شام علاقے میں حفاظتی دستوں کی طرف سے کی جانے والی ایک مشترکہ کارروائی کے دوران شروع ہوئی تھی اور ہنوز جاری ہے''۔
انھوں نے کہا کہ ''اب تک تین دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے''۔ تاہم، پولیس کا کہنا ہے کہ جھڑپ تینوں عسکریت پسندوں کی ہلاکت پر ختم ہوگئی اور یہ کہ ان کی شناخت کی جا رہی ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق، ان میں القاعدہ کی مقامی سیل یا شاخ انصار غزوۃ الہند کا ایک اعلیٰ کمانڈر بھی شامل ہے۔
اطلاعات کے مطابق طرفین کے درمیان لڑائی میں ایک مقامی خاتون اور ایک افسر (میجر) سمیت تین حفاظتی اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ اسپتال ذرائع کے مطابق، خاتون شہری شہناز بانو کی دونوں ٹانگوں میں گولیاں لگی ہیں۔ ایک اور شہری آصف احمد ریشی حفاظتی دستوں کی طرف سے علاقے میں مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کے نتیجے میں زخمی ہوگیا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ محصور عسکریت پسندوں اور حفاظتی دستوں کے درمیان جھڑپ کے آغاز کے ساتھ ہی مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر اُمڈ آئی اور بھارت مخالف اور عسکریت پسندوں کے حق میں نعرہ بازی کرنے لگی۔ حفاظتی دستوں نے مظاہرین اور پتھراؤ کرنے والے ہجوم پر آنسو گیس چھوڑی اور چھرے والی بندوقوں کا استعمال کیا-
ملہورہ گاؤں میں چند روز پہلے پیش آئی اسی طرح کی ایک جھڑپ کے دوران چار مشتبہ عسکریت پسند مارے گیے تھے۔
بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں حفاظتی دستوں کے ساتھ ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کی نعشوں کو اب ان کے رشتے داروں کو سونپنے کے بجائے انہیں پولیس اُن کے آبائی علاقوں سےدور ایسے قبرستانوں میں دفناتی ہے جہاں عمومی طور پراس طرح کے واقعات میں مارے جانے والے غیر ملکی یا غیر شناخت شدہ عسکریت پسندوں کی آخری رسومات ادا کی جاتی تھیں۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے مقامی عسکریت پسندوں کی نعشوں کو ان کے لواحقین کے حوالے نہ کرنے کا فیصلہ اس لیے لیا گیا تاکہ ان کی تجہیز و تکفین میں لوگ بڑی تعداد میں شریک نہ ہوں، جیسا کہ پولیس کی طرف سے منع کرنے کے باوجود اس ماہ کے شروع میں شمال مغربی ضلع بارہمولہ میں ہوا تھا۔
حکام کا استدلال ہے کہ عسکریت پسندوں کی تدفین میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت کرونا وائرس یا کووڈ-19 کے خطرے سے نمٹنے کے لیے وادی کشمیر میں 19 مارچ سے نافذ لاک ڈاؤن کے مقصد کو فوت کرسکتی ہے۔ تاہم، ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار وجے کمار نے بتایا کہ اگر مارے جانے والے کسی عسکریت پسند کی پہچان کرنے کے لیے اُس کے گھر والے آگے آتے ہیں تو ان میں سے چند ایک کو بھی تدفین میں شامل ہونے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔