بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ چند دنوں کے دوران صحافیوں کے خلاف مقدمات کے اندراج پر بھارتی حکومت پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ صحافیوں کے خلاف مقدمات پر کشمیر کی صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں جب کہ عالمی صحافتی تنظیموں نے بھی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی کشمیر کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں 1989 سے شروع ہونے والی مسلح شورش کے بعد میڈیا پر قدغنوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے بعد جموں و کشمیر کے صحافیوں کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
وادی کے حالات منظر عام پر لانے کی پاداش میں گزشتہ دنوں خاتون فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ ضلع شوپیان میں مشتبہ عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کی جھڑپ کی رپورٹنگ کو حقائق کے برعکس قرار دیتے ہوئے سرینگر کے صحافی پیرزادہ عاشق کے خلاف مقدمہ درج ہے۔
ایک اور صحافی گوہر گیلانی کے خلاف بھی سوشل میڈیا پر ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی۔
بھارتی کشمیر کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہ حکومتی اقدامات سے خوفزدہ نہیں لیکن اُنہیں پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کئی مشکلات کا سامنا ہے۔
کشمیر پریس کلب کے عہدے دار معظم محمد کا کہنا ہے کہ پانچ اگست 2019 کے بعد صحافیوں کو ہراساں کرنے کا معاملہ کئی بار حکام کے سامنے اُٹھایا۔ لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے معظم محمد نے کہا کہ 1989 کے بعد سے ہی صحافیوں کے لیے وادی میں حالات سازگار نہیں تھے۔ لیکن کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ہونے کے بعد صحافیوں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
معظم کے بقول صحافیوں کی گرفتاریاں اور اُن کے خلاف مقدمات کا اندراج جمہوریت کے بنیادی اُصولوں کی نفی ہے۔ لہذٰا وہ اس معاملے پر آواز بلند کرتے رہیں گے۔
معظم کے بقول غیر اعلانیہ سنسر شپ، اشتہارات کی بندش اور صحافیوں پر قاتلانہ حملے کئی سالوں سے جاری ہیں۔ اُن کے بقول گزشتہ نو ماہ تو صحافیوں کے لیے انتہائی مشکل تھے۔ انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی پابندیوں کے علاوہ تین صحافی اب بھی قید میں ہیں۔
بعض صحافیوں کو یہ بھی گلہ ہے کہ ریاستی حکام صرف مخصوص صحافیوں کو انٹرویوز دیتے ہیں جو حکومتی پالیسی کی حمایت کرتے ہیں۔ البتہ غیر جانبدار اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
روزنامہ 'چٹان' کے مدیر طاہر محی الدین کے مطابق یہ صورتِ حال ایک غیر جانبدار صحافی کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ان کے بقول "ہمیں دباؤ کا سامنا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پوری سوسائٹی دباؤ میں ہے تو بے جا نہ ہو گا۔"
ایک اور کشمیر ی صحافی اور بھارتی انگریزی اخبار 'دی انڈین ایکسپریس' کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر مزمل جلیل کا کہنا ہے کہ "کشمیر میں کام کرنے والے آزاد صحافی اور اخبارات موجودہ حکومت اور انتظامیہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔"
لیکن مقامی صحافیوں کے احتجاج اور بھارت سمیت عالمی صحافتی تنظیموں کے باوجود بھارتی کشمیر کے صحافیوں کی مشکلات برقرار رہیں۔
صحافی گوہر گیلانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو مسترد کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ 15 سال سے صحافت کے پیشے سے منسلک ہیں، اور اُنہوں نے ہمیشہ ایمانداری کے ساتھ حقائق سامنے لانے کی کوشش کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایک جانب کووڈ-19 کے باعث پوری دنیا اس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کر رہی ہے۔ لیکن بھارتی حکومت اس موقع پر بھی صحافیوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
کشمیر کے ایک اور صحافی محمد سعید ملک نے پیرزادہ عاشق، گوہر گیلانی اور مسرت زہرا کے خلاف مقدمات پر تشویش کا اظہار کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس نازک دور میں صحافیوں پر مقدمات قائم کرنا انتظامیہ کی تنگ نظری کی عکاسی ہے۔ اُن کے بقول ان انتقامی کارروائیوں کے خلاف وادی سمیت پورے ملک میں جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ قابل فہم ہے۔
'نقص امن سے بچنے کے لیے یہ اقدامات کیے'
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کا موقف ہے کہ صحافیوں کے خلاف مقدمات نقصِ امن سے بچنے کے لیے درج کیے گئے۔
حکام کا کہنا ہے کہ غلط رپورٹنگ اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر مقدمات قائم کیے گئے۔
لہذٰا اسے آزادی صحافت پر قدغن نہ سمجھا جائے۔ صحافیوں کے خلاف مقدمات اور اُن سے پوچھ گچھ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کی گئی۔
صحافتی تنظیموں کی مذمت
صحافیوں کے حقوق اور میڈیا کی آزادی کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے بھارتی کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کی مذمت کی ہے۔
اپنی ٹوئٹ میں (سی پی جے) کا کہنا ہے کہ مسرت زہرا اور پیرزادہ عاشق کو ہراساں کرنے کا عمل تشویش ناک ہے۔ صحافیوں کو جموں و کشمیر میں پیش آنے والے واقعات کی رپورٹنگ کی اجازت ہونی چاہیے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی مسرت زہرا اور پیرزادہ عاشق کے خلاف مقدمات کے اندراج کی مذمت کی ہے۔ تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
صحافتی تنظیموں کے مطابق بھارتی کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کم سے کم 18 صحافیوں کو تشدد کے بعد قتل کیا گیا۔ صحافیوں کا الزام ہے کہ ان میں سے کچھ کو عسکریت پسندوں نے جب کہ چند کو سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہلاک کیا گیا۔