جمعے کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس اور نیم فوجی دستوں نے گرمائی صدر مقام سرینگر کے کئی علاقوں میں ایک مرتبہ پھر کرفیو جیسی حفاظتی پابندیاں عائد کیں اور شعیہ مسلمانوں کو یومِ عاشورا کے موقعے پر شہر کے روایتی راستوں سے ذوالجناح کا جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی۔
عزاداروں کی بڑی تعداد نے جب سرینگر کے ان علاقوں میں نمودار ہو کر تعزیتی جلوس نکالنے کی کوشش کی تو پولیس نے ان کے خلاف طاقت استعمال کی اور پھر درجنوں عزاداروں کو حراست میں لے لیا۔
بُدھ کو بھی سرکاری دستوں نے سرینگر میں محرم کی 8 تاریخ کو نکالے جانے والے روایتی ماتمی جلوس پر انتظامیہ کی طرف سے ایک مرتبہ پھر پابندی لگائے جانے کے بعد سرینگر کے کئی علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کی تھیں۔
عہدیداروں نے بتایا کہ سرینگر کے چند علاقوں میں حفاظتی پابندیاں حفظ ماتقدم کے طور پر امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے لگائی گئیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہیں خدشہ تھا کہ اگر شہدائے کربلا کی یاد میں تعزیتی جلوس نکانے کی اجازت دی جاتی ہے تو استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکن انہیں بھارت مخالف مظاہروں میں بدلنے کی کوشش کریں گے اور اس طرح امن و امان میں رخنہ پڑ جائے گا-
لیکن، ان جماعتوں نے اس مفروضے کو رد کرتے ہوئے حکام پر ریاست میں لوگوں کے سیاسی اور مذہبی حقوق کو مختلف بہانے بنا کر سلب کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں تقریباً 30 سال پہلے مسلح تحریک کے آغاز پر حکومت نے محرم کی آٹھ اور دس تاریخوں پر سرینگر میں روایتی راستوں سے ماتمی جلوس نکالنے پر پابندی عائد کی تھی جو ہنوز جاری ہے۔
تاہم، شعیہ مسلمانوں کو شہر کے اُن علاقوں میں جہاں وہ اکثریت میں آباد ہیں بعض پابندیوں کے تحت جلسے منعقد کرنے اور جلوس نکالنے کی اجازت ہے۔ ریاست کے دوسرے حصوں میں شہدائے کربلاء کی یاد میں اس طرح کی تقریبات کے انعقاد پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
جمعے کو یومِ عاشورا کے موقعے پر ریاست کے کئی علاقوں میں ذوالجناح کے جلوس نکالے گئے اور تعزیتی مجالس منعقد کی گئیں۔