رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں دو دن کی خاموشی کے بعد پھر تشدد بھڑک اٹھا


بھارتی کشمیر میں سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین میں جھڑپیں۔ فائل فوٹو۔
بھارتی کشمیر میں سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین میں جھڑپیں۔ فائل فوٹو۔

بھارتی فوج جب ضلع پلوامہ کے گاؤں گسو میں داخل ہوئی تو مقامی لوگوں نے گھروں سے باہر  نکل کر بھارت کے خلاف نعرے لگائے جس کے بعد مقامی لوگوں اور فوج میں جھڑپیں ہونے لگیں جن میں کئی افراد زخمی ہو گیے۔

نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ میں پیر کو بھارتی فوج کی فائرنگ میں ایک نوجوان کی ہلاکت کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے ۔ اس دوران کئی مقامات پر مشتعل نوجوانوں اور سرکاری دستوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج اور دوسرے حفاظتی دستوں نے پلوامہ کے تقریباً ایک درجن دیہات گھیرے میں لے کر فوجی آپریشن شروع کیا تھا جس کا مقصد، جیسا کہ عہدیداروں نے بتایا، اس علاقے میں چھپے ہوئے عسکریت پسندوں کو زندہ یا مردہ پکڑنا تھا۔

عہدے داروں نے بتایا کہ آپریشن، علاقے میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی مصدقہ اطلاع ملنے پر شروع کیا گیا تھا۔

لیکن جونہی فوج گسو نامی گاؤں میں داخل ہوئی تو مقامی لوگوں نے گھروں سے باہر نکل کر بھارت کے خلاف نعرے لگائے اور پھر اُن کا فوج کے ساتھ تصادم ہوا۔ دارالحکومت سرینگر میں بھارتی فوج کے ایک ترجمان نے بتایا کہ اُس کے بقول شرپسندوں نے فوج کی گاڑیوں پر پتھر برسائے اور ان میں سوار سپاہیوں پرمہلک حملے کئے۔

فوج کی فائرنگ سے کئی افراد زخمی ہو گئے۔ ان میں سے ایک شخص جس کی شناخت 22 سالہ فیاض احمد وانی کے طور پر کی گئی ہے، بعد میں سرینگر کے ایک اسپتال میں چل بسا۔ اسپتال ذرائع کے مطابق فوج نے نوجوان کے سر میں گولی ماری تھی۔ نوجوان کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی پلوامہ کے مزید کئی علاقوں میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جن میں متعدد افراد زخمی ہو گئے۔

اس سے پہلے پیر ہی کے روز پلوامہ کے نیرہ نامی گاؤں میں بھارت نواز علاقائی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک سرگرم رکن معراج احمد پّرہ پر نامعلوم افراد نے قاتلانہ حملہ کیا۔ پولیس نے واقعے میں عسکریت پسندوں کو موردِ الزام ٹھراتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سیاسی کارکن پر اُس کے آبائی گاؤں میں گولی چلائی لیکن وہ اس حملے میں بال بال بچ گیا۔

شورش زدہ ریاست کے صحافیوں کی انجمنوں نے پولیس اور دوسری سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے صحافیوں، رپورٹروں اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ دوسرے کارکنوں کو مبینہ طور پر مختلف بہانے بنا کر ہراساں کرنے اور ان کے کام میں رخنہ ڈالنے کی کارروائیوں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ آزادئ تقریر و تحریر کو دبانے کی ان کوششوں کی مزاحمت کی جائے گی۔

ان انجمنوں نے جن میں کشمیر ایڈیٹرس گلڈ بھی شامل ہے کہا ہے کہ اخبارات کو سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے ایسے پیغامات بھیجے جارہے ہیں جن میں اخبارات میں چھپے مواد کے بارے میں وضاحتیں طلب کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس اخباری رپورٹروں پر ان کے سورسز یا خبروں کے ذرائع کو افشا کرنے کے لئے دباؤ ڈالا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتِ حال بھارت میں ایمرجنسی کے نفاذ کے دوران بھی مشاہدے میں نہیں آئی تھی۔

پولیس نے ایک ہفتہ پہلے ایک مقامی جریدے کے رپورٹر آصف سطان کو اُس کے گھر پر رات کے گیارہ بجے چھاپے کے بعد حراست میں لیا تھا۔ کئی دنوں تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے کے بعد پولیس نے سنیچر کے روز رپورٹر کو باضابطہ طور پر گرفتار کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس کے ہاتھ ایسا مواد لگا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رپورٹر جانے پہچانے دہشت گردوں کو پناہ دینے کے سلسلے کی سازش میں ملوث تھا۔ تاہم کیس کی تحقیقات جاری ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG