|
نئی دہلی -- بھارت کی مرکزی کابینہ نے ’ون نیشن ون الیکشن‘ کے بل کو منظوری دے دی ہے۔ اب اسے پارلیمان کے رواں اجلاس میں پیش کیا جائے گا اور پھر اسے مزید غور و خوض کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کر دیا جائے گا۔ پارلیمانی اجلاس 20 دسمبر تک چلے گا۔
میڈیا رپورٹس میں حکومت کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اگر یہ بل پارلیمان سے منظور ہو کر قانون بن گیا تو اس کے تحت پہلا انتخاب 2034 میں ممکن ہو سکے گا۔
سابق صدر رام ناتھ کووند کی سربراہی والی کمیٹی نے 18 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرائے جائیں۔ بعد ازاں بلدیاتی اداروں کے انتخابات 100 دنوں کے اندر کرائے جائیں۔
کمیٹی نے دو آئینی ترمیمی بل پیش کیے۔ پہلا لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات کو ایک ساتھ کرانا اور دوسرا دہلی، پانڈیچری اور جموں و کشمیر جیسی یونین ٹیریٹریز یعنی مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں میں ایک ساتھ الیکشن کرانا۔
کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی اور پورے ملک کے لیے ایک ووٹر لسٹ بنانی ہو گی۔ آئینی ماہرین کے مطابق 'ون نیشن ون الیکشن' کی سفارش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آئین کی کم از کم پانچ دفعات میں ترامیم کرنا ہوں گی۔
بل کے مطابق اگر معلق پارلیمان، عدم اعتماد کی تحریک یا کسی اور وجہ سے حکومت گر جاتی ہے تو لوک سبھا کا نیا الیکشن کرایا جائے گا۔ لیکن اس کی مدت لوک سبھا کی بچی ہوئی مدت کے لیے ہوگا پانچ سال کے لیے نہیں۔
اسی طرح اگر کسی ریاست کی اسمبلی کسی وجہ سے تحلیل ہو جاتی ہے تو نیا الیکشن کرایا جائے گا اور جو نئی اسمبلی بنے گی اس کی مدت لوک سبھا کی باقی بچی مدت تک ہی مانی جائے گی۔
حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) 2014 میں مرکز میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے ہی لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرائے جانے پر زور دیتی رہی ہے۔ اس نے اسے اپنے انتخابی منشور میں بھی شامل کیا ہے۔
حکومت کے منصوبہ ساز ادارے ’نیتی آیوگ‘ نے 2017 میں اپنی ایک رپورٹ میں اس تجویز کی حمایت کی تھی۔ اس کے اگلے سال اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں اس کا ذکر کیا تھا۔ قانون کمیشن نے 2018 میں اس کا جائزہ لینے کی بات کہی تھی۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے 2019 میں لال قلعے کی فصیل سے اپنے خطاب میں 'ون نیشن ون الیکشن' کی بات کی تھی۔
تجزیہ کاروں کی جانب سے اس پر ملی جلی آرا ظاہر کی جا رہی ہیں۔ جہاں کچھ تجزیہ کار حکومت کے اس قدم کی حمایت کر رہے ہیں تو کچھ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
تین عشروں سے بھی زائد عرصے سے پارلیمانی اجلاس کو کور کرنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار اوما کانت لکھیڑہ کا کہنا ہے کہ اس قدم سے ملک کے وفاقی کیرکٹر پر براہ راست اثر پڑ رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت ریاستوں کی اختیارات کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ وہ ملک کو آمریت کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان کے مطابق اگر اسمبلیوں کے انتخابات لوک سبھا کے ساتھ کرانے ہیں تو ریاستی اسمبلیوں میں اس پر بحث ہونی چاہیے۔ ریاستی پارٹیوں کے ذمہ داران یہ طے کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
ان کے خیال میں ملک کے وفاقی ڈھانچے کے پیش نظر آئین اس کی اجازت نہیں دیتا کہ مرکز کوئی ایسا قانون بنائے جو ریاستی حکومتوں پر بھی نافذ ہو۔ یہ دہشت گردی پر قابو پانے والا قانون نہیں ہے بلکہ ملک کے نظام کو بدلنے کی کوشش ہے اور وفاقی ڈھانچے میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ انتخابات جیتنے کے لیے بی جے پی کے پاس جتنا سرمایہ ہے اتنا کسی بھی پارٹی کے پاس نہیں ہے۔ علاقائی پارٹیاں کمزور ہیں۔ ان کے پاس پیسوں کی کمی ہے۔ وہ بیک وقت لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کا بوجھ برداشت نہیں کر پائیں گی۔
اپوزیشن کی مخالفت
حزبِ اختلاف نے اس بل کی شدید مخالفت کی ہے۔ انھوں نے اسے وفاقیت اور جمہوریت کے منافی اور ناقابلِ عمل قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ قدم ملک کو درپیش اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے کے مطابق یہ بل ناقابلِ عمل ہے۔ اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
متعدد ریاستوں میں اپوزیشن پارٹیوں کی حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ انھوں نے بھی اسے وفاقی ڈھانچے پر حملہ قرار دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اس طرح ملک میں صدارتی نظام لانے کی کوشش کر رہی ہے۔
کیرالہ کے وزیرِ اعلیٰ پنرائی وجیئن، جھارکھنڈ کے وزیرِ اعلیٰ شیبو سورین، کرناٹک کے وزیرِ اعلیٰ سدھا رمیا، تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن، ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے رکن پارلیمان ڈیرک او برائن، سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمان اکھلیش یادو، شیو سینا اودھو گروپ کے رکن پارلیمان اروند ساونت، راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیمان پروفیسر منوج کمار چھااور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی وغیرہ نے بھی اس بل کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
'بیک وقت انتخابات سے ووٹرز کو سہولت ہو گی'
حکومت کا استدلال ہے کہ بیک وقت انتخابات سے ووٹرز کے لیے سہولتیں پیدا ہوں گی اور ووٹر ٹرن آوٹ بھی زیادہ ہو گا۔ اس سے حکومت کے خزانے پر کم بوجھ پڑے گا۔ اس کے علاوہ سپلائی چین پر کم اثر پڑے گا۔
اس کے مطابق بار بار کے انتخابات سے سیکورٹی اہل کاروں پر منفی اثر پڑتا ہے۔ انتخابات کے مواقع پر مثالی ضابطہ اخلاق نافذ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ملک کی ترقی کی رفتار متاثر ہوتی ہے۔
اخبار ’اکانومک ٹائمز‘ کے مطابق الیکش کمیشن آف انڈیا نے قبل ازیں یہ تخمینہ لگایا تھا کہ 2029 میں ایک ساتھ انتخابات کرانے پر 7951 کروڑ روپے کے اخراجات ہوں گے۔
بل کو پارلیمان سے منظور کرانے کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی ارکان کی حمایت درکار ہو گی جو کہ ابھی حکمراں محاذ ’نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) کے پاس نہیں ہے۔ اسے غیر انڈیا بلاک کی دوسری پارٹیوں کی بھی حمایت لینی پڑے گی۔
اس وقت لوک سبھا میں این ڈی اے کے ارکان کی تعداد 293 ہے جب کہ دو تہائی تک پہنچنے کے لیے 361 ارکان کی ضرورت ہو گی۔ پارلیمان میں انڈیا بلاک کے ارکان کی تعداد 235 ہے۔
یاد رہے کہ آزادی کے فوراً بعد لوک سبھا اور اسمبلیوں کے چار انتخابات ایک ساتھ ہوئے تھے۔ اس وقت مرکزی اور ریاستی سطحوں پر کانگریس برسراقتدار تھی۔ لہٰذا 1967 تک ایک ساتھ الیکشن کرانا آسان تھا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ریاستوں کی تعداد اور آبادی میں اضافے اور دیگر مسائل کی وجہ سے ایک ساتھ الیکشن کرانا ممکن نہیں ہو سکے گا۔