|
بھارت کے ایک چڑیا گھر میں دو شیروں کے ناموں پر ایک نیا تنازع سامنے آیا ہے۔ ان میں سے ایک شیرنی اور دوسرا شیر ہے۔ شیرنی کا نام سیتا اور شیر کا اکبر ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ سیتا اور اکبر کو ایک ہی چاردیواری میں کیوں رکھا گیا۔
ہندوؤں کے کٹر گروپ وشوا ہندو پریشد نے، جسے وی ایچ بی بھی کہا جاتا ہے، فروری میں ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں کہا تھا کہ چڑیا گھر کی شیرنی سیتا اور شیر اکبر کو الگ الگ پنجروں میں رکھنے کا حکم دیا جائے، کیونکہ ان کا اکھٹے رہنا سیتا کی توہین اور ہندو عقیدے پر حملہ ہے۔
سیتا اور اکبر کا نام اس وقت میڈیا کی سرخیوں میں آیا جب چڑیا گھروں کے درمیان جانوروں کے تبادلے کے پروگرام کے تحت 12 فروری کو شمال مشرقی ریاست تری پورہ کے ایک چڑیا گھر سے شیروں کے ایک جوڑے کو مغربی بنگال میں جانوروں کے ایک پارک میں منتقل کیا گیا۔ تری پورہ کے وائلڈ لائف حکام نے منتقلی کے کاغذات میں ان کے ناموں کا اندارج سیتا اور اکبر کے طور پر کیا۔
اس جوڑے کے مغربی بنگال پہنچے کے تقریباً ایک ہفتے کے بعد وشوا ہندو پریشد نے کولکتہ ہائی کورٹ میں ناموں سے متعلق اپنی درخواست دائر کر دی۔
وشوا ہندو پریشد کے مغربی بنگال کے سیکرٹری لکشمن بنسل نے ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ دائر کرتے ہوئے کہا کہ شیرنی کا نام سیتا رکھنے سے ہندوؤں کو بہت پریشانی ہوئی ہے۔ کیونکہ سیتا بھگوان رام کی جیون ساتھی تھیں، ہندو دیوتاؤں میں رام کی سب سے زیادہ پوجا کی جاتی ہے اور سیتا خود بھی ایک مقدس دیوی ہیں۔
بنسل کا کہنا تھا کہ ہم سیتا کو اکبر کے ساتھ ایک ہی احاطے میں رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
وشوا ہندو پریشد کے ایک اور لیڈر دولل رائے کا کہنا تھا کہ مذہبی دیوتا کے نام پر کسی جانور کا نام رکھنا توہین آمیز ہے۔
کولکتہ ہائی کورٹ نے وشوا ہندو پریشد کی دائر کردہ درخواست کے جواب میں 22 فروری کو مغربی بنگال کے وائلڈ لائف حکام کو کہا کہ وہ شیروں کے نام تبدیل کر دیں۔
ہائی کورٹ کے ایک جج نے عہدیداروں سے کہا کہ غیر ضروری تنازع سے بچنے کے لیے ان ناموں کا استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
26 فروری کو، تریپورہ کی حکومت نے شیروں کے ناموں پر وشوا ہندو پریشد کی درخواست کے بعد وائلڈ لائف کے چیف وارڈن پروین لال اگروال کو معطل کر دیا۔
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ظفر الاسلام خان کا کہنا ہے کہ بھارت میں ہندو عقیدے کے پیروکاروں میں ہندو دیوتاؤں کے نام پر جانوروں کے نام رکھنے کا رواج بہت پرانا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دہلی کے چڑیا گھر میں کئی دہائیوں سے شنکر نام کا ایک افریقی ہاتھی موجود ہے۔ جب کہ شنکر بھی ایک ہندو دیوتا کا نام ہے۔ اسی چڑیا گھر میں سیتا نام کی ایک سفید شیرنی بھی ہے۔ کسی تنظیم نے آج تک ان کے ناموں پر اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی مقدس ہونے کا سوال اٹھایا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر سیتا اور اکبر کو ایک احاطے میں نہ رکھا گیا ہوتا تو کسی کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا تھا۔
انسانی حقوق کی ایک کارکن انگانا چٹرجی نے، جو یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں نفسیاتی علوم کی ماہر ہیں، وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قوم پرست گروپ، ہندو مسلم اختلافات کو بڑھاوا دینے کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں۔ وہ دونوں قوموں کی مشترکہ تاریخ کے بارے میں جھوٹ بول کر، ایک قوم، ملک اور ثقافت کے طور پر بھارت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر الوک واٹس کا کہنا ہے کہ بی جے پی پر ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کا الزام بے بنیاد ہے۔ ہماری پارٹی ہندوؤں اور مسلمانوں میں کوئی تفریق نہیں کرتی۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد، خاص طور پر ان کی خواتین بی جے پی میں شامل ہو رہی ہیں۔
دہلی یونیورسٹی کے اپوروانند نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عدالت نے وشوا ہندو پریشد کے اس دعو ے کو تسلیم کیا کہ شیرنی سیتا اور شیر اکبر کو ایک ہی احاطے میں رکھنے سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس لگی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے سوال کیا کہ سیتا کس طرح اس شیر کے ساتھ رہ سکتی ہے جس کا نام مسلم ہو۔ عدالت کا یہ سوال ایک مضبوط پیغام ہے کہ معاشرے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
(شیخ عزیز الرحمنٰ، وی او اے نیوز)