افغانستان کے معاملے پر بھارت نے اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ اس سلسلے میں بھارت کے ایک وفد نے دوسری مرتبہ طالبان کے ایک وفد سے ملاقات کی ہے جب کہ ماہرین ان ملاقاتوں کو درست سمت کی جانب اہم قدم قرار دے رہے ہیں۔
بھارتی وفد اور افغان رہنماؤں کی یہ ملاقات روس کے دارالحکومت ماسکو میں افغانستان کی صورتِ حال پر منعقد ہونے والی کانفرنس کے موقع پر بدھ کو ہوئی۔
رپورٹس کے مطابق بھارتی وفد میں وزارتِ خارجہ میں افغان امور کے انچارج، جوائنٹ سیکرٹری جے پی سنگھ اور جوائنٹ سیکرٹری (یوریشیا) آدرش سوائیکا شامل تھے جب کہ طالبان حکومت کی جانب سے نائب وزیرِ اعظم عبد السلام حنفی تھے۔
طالبان کے ذرائع کے مطابق بھارتی وفد نے انسانی بنیادوں پر افغان عوام کی امداد پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ تاہم بھارت کی جانب سے اس بارے میں تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔
یاد رہے کہ بھارت کی جانب سے اگلے ماہ افغانستان کی صورتِ حال پر نئی دہلی میں ایک اجلاس منعقد کرنے کا قوی امکان ہے۔ نئی دہلی میں منعقد ہونے والا اپنی نوعیت کا یہ پہلا اجلاس ہو گا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں پاکستان اور چین سمیت روس، تاجکستان اور ازبکستان کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ ماسکو میں ہونے والی ملاقات گزشتہ ماہ طالبان کی جانب سے عبوری کابینہ کے اعلان کے بعد فریقین کے درمیان پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔ اس سے قبل 31 اگست کو دوحہ میں بھارتی نمائندے نے طالبان رہنما شیر محمد استنکزئی سے ملاقات کی تھی جو بھارت اور طالبان کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماسکو میں فریقین کے درمیان ملاقات کے بعد طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ بھارتی نمائندوں نے افغان عوام کی انسانی بنیادوں پر مدد کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
کچھ دیر کے بعد طالبان ترجمان نے ایک مختصر بیان بھی جاری کیا اور کہا کہ فریقین نے اس پر غور کیا کہ فریقین کی تشویش پر توجہ دینے اور سفارتی اور اقتصادی تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
ترجمان کے مطابق جے پی سنگھ نے بھی کہا کہ بھارت انسانی بنیادوں پر افغان عوام کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔
اگرچہ بھارت کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے لیکن ذرائع نے اس کی تصدیق کی ہے کہ بھارت نے مالی بحران سے دوچار افغانستان کی انسانی بنیادوں پر مدد کا وعدہ کیا ہے۔
اگرچہ بھارت کی جانب سے کسی مقررہ رقم کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن نئی دہلی کے اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارت 50 ہزار میٹرک ٹن گیہوں بھیجنے پر غور کر رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
صحیح سمیت میں درست قدم
سابق سفارت کار راجیو ڈوگرہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ماسکو میں ہونے والے اجلاس کے موقع پر بھارتی نمائندوں کی طالبان نمائندے سے ملاقات صحیح سمت میں ایک قدم ہے۔
اُن کے بقول بھارت پہلے بھی افغان عوام کی مدد کرتا رہا ہے اور اس نے وہاں متعدد ترقیاتی منصوبوں پر کام بھی کیا ہے اور اب بھی کئی منصوبے نامکمل ہیں۔
ان کے مطابق اب اگر بھارت انسانی بنیادوں پر افغان عوام کی مدد کرتا ہے تو ان کی مشکلات میں کمی آ سکتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک اچھا قدم ہے۔ بھارت کو طالبان سے تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت طالبان سے تعلقات قائم نہیں کرتا ہے تو پاکستان سے طالبان کے رشتوں کی وجہ سے یہ خدشہ ہے کہ طالبان حکومت پر پاکستان اثرانداز ہو جائے گا۔ یہ صورتِ حال بھارت کے لیے نقصان ہو گی۔
یاد رہے کہ پاکستان اور طالبان نے ایسے کسی امکان کو رد کیا ہے۔
راجیو ڈوگرہ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کے حوالے سے بھارت کی سرگرمیاں بڑھی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ نہ تو ماسکو اجلاس میں شرکت کرتا اور نہ ہی افغانستان کے معاملے پر نئی دہلی میں کسی اجلاس کے انعقاد پر غور کرتا۔
ان کے مطابق بھارت دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ جب دنیا کے متعدد ممالک افغانستان کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں تو بھارت کو تو اور زیادہ غور کرنا پڑے گا کیونکہ افغانستان اور بھارت میں دوستانہ مراسم رہے ہیں اور افغانستان میں بھارت کے مفادات داؤ پر لگے ہیں۔
ان کے خیال میں کچھ تجزیہ کاروں کی یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ جب امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کیے تو پھر بھارت کو بھی کرنے چاہیے تھے۔ لیکن اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ طالبان کے بارے میں بھارت کے تلخ تجربات رہے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے۔
راجیو ڈوگرہ نے کہا کہ اس سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو گئی ہے اور اب وہاں ان کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
اُن کے بقول لگتا ہے کہ جب تک کوئی دوسری طاقت نہیں ابھرتی طالبان وہاں برسرِاقتدار رہیں گے۔ ان حالات میں دنیا کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے، کیا اب افغانستان سے رشتہ توڑ لیا جائے اور اسے تنہا چھوڑ دیا جائے؟
ان کے بقول اگر طالبان کی وجہ سے افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے تو افغان عوام کا کیا ہو گا۔ لہٰذا دنیا کے ممالک یہ سوچ رہے ہیں کہ کوئی ایسا راستہ نکالنا چاہیے کہ افغان عوام کی مدد کی جائے تاکہ ان کی مشکلات کم ہوں۔
راجیو ڈوگرہ کہتے ہیں کہ اس وقت افغانستان کو دنیا کی توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر طالبان کو الگ تھلگ چھوڑ دیا جاتا ہے تو دہشت گردی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ اگر ان سے رابطہ رہے گا تو ان کو یہ محسوس ہو گا کہ دنیا ہمارے ساتھ ہے اور پھر ان کی سوچ میں تبدیلی آ سکتی ہے اور وہ انتہا پسندی کا راستہ ترک کر سکتے ہیں۔ دنیا کو اس سلسلے میں مثبت انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماسکو میں افغانستان کے مسئلے پر اجلاس ہوا ہے، بھار ت میں بھی افغانستان کے مسئلے پر اجلاس ہونے والا ہے۔ ادھر اس سے قبل امریکہ نے دوحہ میں طالبان سے مذاکرات کر کے ان سے معاہدہ کیا۔ اقوامِ متحدہ بھی اپنے نمائندے بھیج رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے ممالک طالبان حکومت کے لیے نرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اگر طالبان خود کو بدلتے ہیں اور اپنے وعدے پورے کرتے ہیں تو ایک وقت آئے گا جب دنیا کے ممالک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں مثبت انداز میں غور و فکر کریں گے اور ممکن ہے کہ ایک دن طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا جائے۔