روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے طالبان حکومت کی کوششوں کو سراہتے ہیں، تاہم طالبان کو دیگر نسلی گروہوں کو بھی حکومت میں شامل کرنا ہو گا۔
بدھ کو افغانستان کی صورتِ حال پر ماسکو میں ہونے والی کانفرنس سے قبل ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے روسی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ "افغانستان میں اب ایک نیا سیٹ اپ آ چکا ہے اور ہم سیاسی استحکام اور حکومتی نظم و نسق کی بحالی کے لیے اُن کی کوششوں کو نوٹ کر رہے ہیں۔"
روسی وزیرِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ طالبان ایک ایسا انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیں جس میں تمام سیاسی دھڑوں اور جمہوری قوتوں کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہو۔
روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف نے کانفرنس میں امریکہ کی عدم شرکت پر مایوسی کا اظہار کیا۔
کانفرنس میں طالبان حکومت کے وفد، پاکستان اور چین کے وفود سمیت 10 علاقائی ممالک کے نمائندے شریک ہوئے۔ تاہم امریکہ نے کانفرنس میں اپنا نمائندہ نہیں بھیجا جس کی وجہ تیکنیکی مسائل بتائی گئی تھی۔
ماسکو کانفرنس کو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کے مستقبل اور اسے درپیش معاشی مشکلات کے حل کے لیے ہونے والی سب سے بڑی بیٹھک قرار دیا جا رہا ہے۔
طالبان حکومت کے نائب وزیرِ اعظم عبدالسلام حنفی کی سربراہی میں طالبان وفد کانفرنس میں شریک ہوا۔
داعش کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں علاقائی ممالک کے لیے خطرہ
یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب افغانستان میں شدت پسند گروپ داعش کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر علاقائی ممالک اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ توقع کر رہے ہیں کہ طالبان جامع حکومت سے متعلق بین الاقوامی برادری کی توقعات اور وعدوں کی پاسداری کریں۔
طالبان کے ترجمان اور اطلاعات و ثقافت کے نائب وزیر ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ماسکو کانفرنس میں شریک طالبان وفد اپنی عبوری حکومت کے بارے میں خطے اور دنیا کے ممالک کو آگاہ کرے گا۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ روس کی طرف سے 2017 سے شروع کیے جانے والے ماسکو مذاکرات میں طالبان شرکت کرتے رہے ہیں۔
ذبیع اللہ مجاہد نے کہا کہ افغانستان میں بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے اور طالبان کا ملک پر کنٹرول ہے۔ ان کے بقول وہ دنیا اور خطے کے ممالک کو اپنی اسلامی حکومت کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
قبل ازیں منگل کو ماسکو میں روس، چین اور پاکستان کے سفارت کاروں نے افغانستان سے متعلق ٹرائیکا پلس اجلاس میں شرکت کی اور افغاستان کی تازہ ترین صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ افغانستان کے روس، چین اور پاکستان کے خصوصی نمائندوں نے مشترکہ سیکیورٹی خدشات اور افغانستان کے لیے فوری امداد کے معاملے پر تبادلۂ خیال کیا۔
خیال رہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کی روس میں یہ ملاقاتیں ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کو بدترین اقتصادی مسائل کا سامنا ہے اور حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے بعد ملک میں خانہ جنگی کے خدشات زور پکڑ رہے ہیں۔
روسی وزیرِ خارجہ نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران بتایا کہ طالبان کی حکومت کو اس وقت تسلیم کیا جائے گا جب وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔
'علاقائی ممالک طالبان کو اپنا طرزِ عمل تبدیل کرنے پر قائل کر سکتے ہیں'
دوسری جانب تجزیہ کار بدھ کو ماسکو میں ہونے والی کانفرنس کو اس حوالے سے اہم قرار دے رہے ہیں کہ کابل کا کنڑول حاصل کرنے کے بعد یہ طالبان کا بین الاقوامی برادری کے ساتھ پہلا اہم اور وسیع رابطہ ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر زاہد حسین کا کہنا ہے کہ ماسکو کانفرنس علاقائی ممالک کی طرف سے طالبان کے زیرِ قبضہ افغانستان کے بارے میں متفقہ پالیسی وضع کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
زاہد حسین کے بقول اس کانفرنس میں شریک علاقائی ممالک ماسوائے بھارت کے طالبان کے ساتھ پہلے بھی رابطے رہے ہیں اور ان کے بقول طالبان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنا مؤقف بین الاقوامی برادری کے سامنے رکھ سکیں۔
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ علاقائی ممالک خاص طور پر روس، چین اور پاکستان کے طالبان کے ساتھ وسیع رابطے ان کے بقول طالبان کے بعض امور سے متعلق ان کے مؤقف میں اعتدال لانے اور انہیں اپنا طرزِ عمل تبدیل کرنے پر قائل کر سکتے ہیں۔
لیکن زاہد حسین کا کہنا ہے کہ ماسکو کانفرنس میں شریک ممالک کی کوشش ہو گی کہ تمام علاقائی ممالک کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے ہو کہ کوئی بھی ملک یکطرفہ طور پر طالبان حکومت کوتسلیم نہیں کرے گا۔
تاہم زاہد حسین کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان کو قانونی طور پر بین الاقوامی قبولیت حاصل نہیں ہوئی ہے لیکن ایک بین الاقوامی کانفرنس میں طالبان کی شرکت کو اُن کی سفارتی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ علاقائی ممالک بشمول روس، چین اور پاکستان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے طالبان کو بھی جامع حکومت اور انسانی حقوق کے حوالے سے لچک کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔
افغان تجزیہ کار فہیم سادات کہنا ہے کہ اس کانفرنس کے ذریعے طالبان کو بھی یہ موقع ملے گا کہ وہ یہ جان سکیں کہ علاقائی ممالک اُن کی حکومت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور مستقبل میں اسے تسلیم کیے جانے کا کتنا امکان ہے۔
اگرچہ طالبان کی کوشش ہے کہ بین الاقوامی برادری افغانستان کو درپیش اقتصادی مشکلات سے نمٹنے کے لیے ان کی براہ راست مدد کرے، لیکن فہیم سادات کا خیال ہے کہ طالبان کو براہ راست امداد فراہم کرنے کے عوض بین الاقوامی برادری بعض شرائط عائد کر سکتی ہے۔
فہیم سادات کا کہنا ہے کہ چین، روس اور پاکستان کو افغانستان میں داعش اور بعض دیگر شدت پسندوں کی موجودگی کے بارے میں تشویش ہے اور وہ طالبان سے یہ توقع کریں گے کہ طالبان دہشت گرد گروپوں کے خلاف مؤثر کارروائی کریں۔