بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کی پولیس نے صحافی اور فیکٹ چیک سائٹ 'آلٹ نیوز 'کے شریک بانی محمد زبیر کو 'اشتعال انگیزی اور نفرت کے جذبات بھڑکانے' کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔
بھارتی نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کے مطابق محمد زبیر کو پیر کی شب گرفتار کیا گیا جن کے خلاف دہلی پولیس کے سب انسپکٹر رام کمار نے ایف آئی آر درج کرا رکھی ہے۔
محمد زبیر کی گرفتاری کے لیے 2018 میں ان کی جانب سے کی گئی ایک ٹویٹ کو جواز بنایا گیا ہے۔جب کہ ایف آئی آر میں محمد زبیر پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور دشمنی کو فروغ دینے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کی نگرانی کر رہے تھے کہ جب ''ہنومان بھکت'' نامی ایک ٹوئٹر ہینڈل سے ایک ٹویٹ نظر آیا جس میں محمد زبیر کے ٹویٹ پر اعتراض کیا جا رہا تھا۔
واضح رہے کہ صحافی محمد زبیر نے حال ہی میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی معطل ترجمان نوپور شرما کی ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس کے بعد ایک نئے تنازع نے جنم لیا تھا۔ پیغمبرِ اسلام سے متعلق نوپور شرما کے متنازع بیان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعدمسلم ممالک کی جانب سے شدید احتجاج سامنے آیا تھا۔
SEE ALSO: ٹوئٹر نے صحافی رعنا ایوب کا اکاؤنٹ بھارتی صارفین کے لیے بلاک کر دیاتاہم پولیس کا کہنا ہے کہ محمد زبیر کی گرفتاری کی وجہ 2018 کی ٹویٹ بنی جس میں انہوں نے بالی وڈ کے لیجنڈری فلم ساز ہریشیکیش مکھرجی کی 1983 کی فلم 'کسی سے نہ کہنا 'کا ایک کلپ شیئر کیا تھا۔
محمد زبیر نے اپنے ٹویٹ میں لکھا تھا کہ تصویر میں نظر آنے والے ہوٹل کے بورڈ پر ہندی میں 'ہنومان ہوٹل' لکھا ہوا ہے جب کہ پینٹ کے نشانات یہ بناتے ہیں کہ اسے پہلے 'ہنی مون ہوٹل' کہا جاتا تھا اور 'ہنی مون' کو تبدیل کرکے 'ہنومان' کردیا گیا۔ ''2014 سے قبل ہنی مون ہوٹل، 2014 کے بعد ہنومان ہوٹل۔''
محمد زبیر کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق ملزم زبیر کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے جان بوجھ کر ایسی پوسٹیں کی گئیں تاکہ ایک مخصوص کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا جائے اور اس کا مقصد امن کو خراب کرنا ہے۔
'آلٹ نیوز' کے شریک بانی پراتک سنہا نے پیر کو ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ محمد زبیر کو دہلی پولیس نے 2020 کے ایک الگ مقدمے میں پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا جس پر وہ حفاظتی ضمانت پر ہیں لیکن پیر کو انہیں ایک نئے کیس میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔
پراتک سنہا کے بقول انہیں زبیر کی گرفتاری سے متعلق درج ایف آئی آر کی نقل فراہم نہیں کی جا رہی۔
محمد زبیر کی گرفتاری ایسے موقع پر ہوئی ہے جب حال ہی میں بھارت میں ایسے واقعات ہوئے ہیں جنہیں مخالف آوازوں کو دبانے کی ایک کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
وزیرِاعظم نریندر مودی کی حکومت کی ناقد خاتون صحافی رعنا ایوب نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ ٹوئٹر نے حکومت کی ایما پر بھارتی صارفین کے لیے ان کی پوسٹس بلاک کردی ہیں۔
فیکٹ چیکر محمد زبیر کی گرفتاری پر صحافتی تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سےبھی سخت ردِ عمل دیا جا رہا ہے۔
بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا کہ ''سچ کی ایک آواز کو گرفتار کرنے سے ہزار مزید آوازیں بلند ہوں گی۔''
ترینامول پارٹی کی ایم پی ماہوا موئترا نے کہا کہ محمد زبیر کو بغیر نوٹس کے ایک جھوٹے مقدمے میں تب گرفتار کیا گیا جب وہ اس کیس میں معاونت کر رہے تھے جس میں ہائی کورٹ نے انہیں تحفظ دیا ہے۔ جب کہ ''فرنگی شرما'' اسی طرح کے جرائم کے لیے ٹیکس دہندگان کے خرچے پر محفوظ زندگی سے لطف اٹھا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ درحقیقت یہ محمد زبیر ہی تھے جو ایک ٹی وی مباحثے کے درمیان نوپور شرما کے ریمارکس کو سب سے پہلے منظرعام پر لائے تھے۔
ادھر کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے ایشیائی پروگرام کے کوآرڈینیٹر اسٹیون بٹلر نے کہا کہ محمد زبیر کی گرفتاری بھارت میں آزادئ صحافت کے لیے ایک اور برا دن ہے۔
سی پی جے کی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان کے مطابق بٹلر کا کہنا تھا کہ حکام کو محمد زبیر کو فوری طور پر اور غیر مشروط طور پر رہا کرنا چاہیے اور انہیں بغیر کسی مزید رکاوٹ کے صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے دینا چاہیے۔
بھارت کے رکن پارلیمنٹ اور سیاسی رہنما اسد الدین اویسی کا کہنا تھا کہ محمد زبیر کو ایک طریقۂ کار کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے حراست میں لیا گیا۔
انہوں نے ٹویٹ کیا کہ دہلی پولیس مسلمان مخالف نسل کشی سے متعلق نعروں پر کچھ نہیں کرتی لیکن نفرت انگیز تقریر کے بارے میں رپورٹ کرنے اور غلط معلومات کو روکنے کے 'جرم' کے خلاف فوری کارروائی کرتی ہے۔
حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس کے رکن پارلیمان ششی تھرور نے محمد زبیر کی گرفتاری کو ’سچائی پر حملہ‘ قرار دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک بیان انہوں نے کہا کہ آلٹ نیوز بہت اہم خدمات انجام دے رہی ہے۔ وہ جھوٹ کا قلع قمع کرتی ہے۔ محمد زبیر کی گرفتاری سچائی پر حملہ ہے۔ انہیں فوراً رہا کیا جانا چاہیے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ماؤسٹ (سی پی آئی ایم) کے سیتا رام یچوری اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے ڈی راجہ نے محمد زبیر کی گرفتاری کی مذمت کی کرتے ہوئے کہا کہ ’نفرت انگیزی کرنے والے دائیں بازو کے لوگوں کو حکمرانوں کی سرپرستی حاصل ہے اور ملک کو بدنام کرنے والوں کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔‘
خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے ایسے الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
سی پی آئی ایم کے جنرل سیکریٹری دیپانکر بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ ’نپور شرما آزاد ہیں۔ وہ پولیس کی گرفت سے باہر ہیں لیکن ان کی نفرت انگیز تقریر کو دنیا کے سامنے لانے والے محمد زبیر کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔‘
مدیروں، صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ شخصیات کی آزادی کے لیے سرگرم بین الاقوامی ادارے ’دی انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ‘ (آئی پی آئی) نے بھی بھارتی صحافی کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کو رہا کرنے کی اپیل کی ہے۔
ڈیجیٹل نیوز میڈیا کی تنظیم ’ڈگی پب‘ (ڈی آئی جی آئی پی یو بی) نے ایک بیان میں کہا کہ وہ محمد زبیر کے ساتھ ہے اور انہیں رہا کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
پریس کلب آف انڈیا نے محمد زبیر کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے گروپ سیون کے اجلاس میں اظہارِ رائے کی آزادی کو برقرار رکھنے کے سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کا حوالہ دیا ہے۔
صحافی رعنا ایوب، عارفہ خانم شیروانی سمیت پریس کلب آف انڈیا کے صدر اوما کانت لکھیڑہ اور دیگر صحافیوں نے گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے محمد زبیر کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
’محمد زبیر دہشت گرد نہیں ہیں‘
کثیر الاشاعت ہندی روزنامے ’دی ہندوستان‘ کے ایڈیٹر اور سینئر تجزیہ کار پرتاپ سوم ونشی نے اس گرفتاری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جس طرح فوری کارروائی کرتے ہوئے گرفتاری عمل میں آئی ہے اس سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر پولیس کے پاس محمد زبیر کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو اسے سامنے لانا چاہیے۔
ان کے مطابق زبیر کہیں بھاگ نہیں رہے تھے۔ وہ دہشت گرد نہیں ہیں، وہ ایک سنجیدہ اور باعزت صحافی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر معاملے کی تحقیقات کرکے دو چار روز بعد گرفتاری ہوتی تو کچھ غلط نہیں ہوتا۔ صرف ٹوئٹ کی بنیاد پر کارروائی کرنا درست نہیں ہے۔ اس طرح ان کی گرفتاری کو جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
ان کے بقول صحافیوں کے خلاف بڑی تیزی سے کارروائی ہو جاتی ہے جب کہ دوسروں کے خلاف اتنی تیزی سے نہیں ہوتی۔ ان کارروائیوں سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنے خلاف آوازوں کو دبانا چاہتی ہے۔ یہ رویہ جمہوریت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔
ان کے خیال میں اس سے قبل بھی تیزی سے کارروائی کرتے ہوئے صحافیوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں اور بعد میں عدالتوں میں الزامات ثابت نہیں ہوئے۔ ایسی کارروائیاں سنسنی تو پیدا کرتی ہیں لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔