گلوبل وارمنگ بھارتی کشمیر کا حسن نگل رہی ہے

فائل فوٹو

سرینگر کی شہرہ آفاق ڈل جھیل بھی اب وہ نہیں رہی جو چند دہائیاں پہلے نظر آرہی تھی۔ جہلم، سندھ، لیدر، کشن گنگا یا نیلم ، چناب اور توی جیسے بڑے دریا بھی آلودگی کا شکار ہو گئے ہیں، کئی ندی نالوں کی حالت تو ناگفتہ بہ ہو کر رہ گئی ہے-

یوسف جمیل

کشمیر میں درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے بڑے اور اہم گلیشیئر تیزی کے ساتھ پِگھل رہے ہیں۔ نیز آبادی میں اضافے کے ساتھ بڑھتی ہوئی انسانی سرگرمی کے جنگلات اور آبی ذخائر پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ کشمیر یونیورسٹی کے جيولوجي اور جیو فزکس ڈپارٹمنٹ کی ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ میں اس کی تصدیق کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ گلیشیئر جو کئی اہم دریاؤں کا منبع ہیں اگلے 20 سے 30 سال تک سکڑ کر آدھے رہ جائیں گے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان سطح سمندر سے 5400 میٹر کی بُلندی پر واقع متنازع اور اپریل 1984 سے دنیا کا بلند ترین میدانِ جنگ بنا ہوا سیاچین گلیشیر پہلے ہی 1989 سے 2009 کے درمیانی عرصے میں طول بلد میں پانچ اعشاریہ نو کلو میٹر تک سکڑ گیاتھا۔

کشمیر دنیا کے خوبصورت ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسے جنتِ نظیر بھی کہتے ہیں اور بعض یورپی سیاحوں نے اسے ایشیا کےسوئٹزر لینڈ کا نام دیا ہے۔ لیکن یہ خطہ اب ماحولیاتی آلودگی کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ انسانی لالچ، حکام کی غفلت، تعمیراتی کاموں میں اچھی پلاننگ کے فقدان اور اسی طرح کی کئی اور وجوہات کے باعث جنگلات کا تیزی کے ساتھ صفایا ہو رہا ہے۔ آب گاہیں آلودہ ہو رہی ہیں اور چرا گاہوں کی دل کشی متاثر ہو رہی ہے۔ بھارتی مسلح افواج کی پہنچ اور سرگرمیوں میں اضافہ بھی ماحولیات پر اثر انداز ہو رہا ہے۔

ماہرین ماحولیات اور سول سوسائٹی کو اس بات پر بھی فکر اورتشویش ہے کہ صحت افزا مقام پہلگام سے تقریباً 40 کلو میٹر دور پہاڑوں کے درمیان واقع امرناتھ گپھا کی یاترا پر آنے والے ہندو زائرین کی تعداد میں مسلسل اضافےکے نتیجے میں پہاڑوں میں حیاتیات کو ناقابلِ تلافى نقصان پہنچ رپا ہے بالخصوص آبی ذخائر اور دوسرے قدرتی وسائل یاتریوں کی طرف سے چھوڑی جانے والی پلاسٹک کی بوتلوں ، پولی تھین لفافوں اور دوسرے ناقابلِ تحليل مواد کے باعث تباہ ہورہے ہیں۔ انہوں نے یاترا جو 25سال پہلے تک صرف دس یا بارہ دنوں تک جاری رہتی تھی، کی مدت کم کرنے اور یاتریوں کی تعداد میں تخفیف کرنے کا مطالبہ دوہرایا ہے۔

سرینگر کی شہرہ آفاق ڈل جھیل بھی اب وہ نہیں رہی جو چند دہائیاں پہلے نظر آرہی تھی۔ جہلم، سندھ، لیدر، کشن گنگا یا نیلم ، چناب اور توی جیسے بڑے دریا بھی آلودگی کا شکار ہو گئے ہیں، کئی ندی نالوں کی حالت تو ناگفتہ بہ ہو کر رہ گئی ہے- ان کے کناروں پر ناجائز قبضہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے اور شاپنگ کمپلیکس اور دوسری عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں ۔لینڈ مافيا اور سرکاری اہل کاروں کے درمیان مبینہ ساز باز نے زمینوں کی شکل تک مسخ کردی ہے۔ زرعی زمین پر تعمیرات کھڑی کی جارہی ہیں۔ چھوٹی بڑی گاڑیوں میں روزانہ ہزاروں کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے گاڑیوں کی آلودگی بھی خطرناک رخ اختیار کرتی جارہی ہے-

مقامی عدالتوں میں کئی درخواستیں زیرِ سماعت ہیں جن میں ماحولیات کو بچانے کی اپیل کی گئی ہے۔ لیکن ماضی میں عدالتوں کے احکامات پر کم ہی عمل درآمد کیا گیا۔