اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ جمعہ کو دنیا کے ممالک کی ایک ریکارڈ تعداد نیویارک میں عالمی ادارے کے صدر دفتر میں ایک اعلیٰ سطحی تقریب کے دوران ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق معاہدے پر دستخط کرے گی۔
اجلاس میں چالیس سے زائد سربراہان مملکت اور سربراہان حکومت کے علاوہ اعلیٰ عہدیداران بھی شرکت کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے ایک ترجمان فرحان حق نے چند روز قبل ایک پریس بر یفنگ کے دوران اعلان کیا تھا کہ جن ممالک نے پیرس میں ہونے والے معاہدے پر دستخط کرنے کا عزم ظاہر کیا ان کی تعداد اب 155 تک پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح عالمی معاہدوں کے حوالے سے یہ ایک سنگ میل معاہدہ ہوگا کیونکہ اس سے پہلے 1982 میں سمندری قوانین کے بارے میں معاہدے پر 119 ممالک نے دستخط کئے تھے۔
گزشتہ سال دسمبر میں پیرس میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کی "کانفرنس آف دی پارٹیز" کے اکیسویں سالانہ اجلاس میں جسے، COP21بھی کہا جاتا ہے دنیا بھر سے 195ممالک نے ماحولیاتی تغیر سے متعلق پہلے عالمی معاہدے پر اتفاق کیا تھا جس کے تمام ممالک قانونی طور پر پابند ہوں گے۔
پہلی مرتبہ اس معاہدے کے تحت ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کیا گیا جس میں خطرناک موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کی غرض سے عالمی حدت میں اضافے کو روکنے کے لئے اقدامات کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ معاہدے میں یہ طے پایا کہ طویل المدت بنیادوں پر عالمی حدت میں اضافے کو دو سنٹی گریڈ سے کم پر محدود رکھنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ ان ممالک نے کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں کمی لانے پر بھی اتفاق کیا۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل میں صنعتی ترقی اور بعض مضر گیسوں کے اخراج کی بدولت عالمی حدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جوگلیشیئرز کے پگھلنے، سمندری سطح بلند ہونے، تباہ کن طوفانوں اور خشک سالی کا سبب بن رہا ہے۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کافی نمایاں ہیں۔ ماہرین حالیہ ایک عشرے کے دوران پاکستان کے مختلف علاقوں میں آنے والے تباہ کن سیلابوں اور خشک سالی کے لئے عالمی حدت یا گلوبل وارمنگ کو ہی قصور وار ٹھہراتے ہیں۔
توقع ہے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جو پہلے سے نیویارک میں موجود ہیں اقوام متحدہ میں پیرس معاہدے پر دستخطکریں گے۔
موسمیاتی تغیرات سے نمٹنے کے لئے عالمی کوششوں کا باقاعدہ آغاز 1992ء میں ریو ڈی جنیرو میں اجلاس سے ہوا جس میں مضر گیسوں کے اخراج میں کمی کے لائحہ عمل پر زور دیا گیا۔
اس کے بعد 1997ءمیں جاپان کے شہر کیوٹو میں ایک عالمی معاہدہ ہوا جس پر عملدرآمد 2005ء میں ہوا لیکن چند اہم صنعتی ممالک نے جن میں امریکہ بھی شامل ہے، اس معاہدے پر دستخط نہیں کئے۔ چین ، بھارت، برازیل اس معاہدے کا حصہ نہیں تھے۔ کینیڈا نے 2012ء میں کیوٹو پروٹوکول سے دستبردارہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
پیرس معاہدے کا اطلاق 2020ء سے ہو گا۔