بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1990 کی دہائی میں مشتبہ عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں عروج پر پہنچنے کے دور میں تشکیل دی گئیں ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں(وی ڈی سی) کو دوبارہ فعال بنانے کے معاملے پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان کمیٹیوں کے ارکان کو اسلحہ بارود فراہم کرنے سے تشدد میں اضافہ ہوگا اور یہ اقدام فرقہ ورانہ تصادم کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے گزشتہ دنوں سرحدی ضلعے راجوری کے گاؤں اَپر ڈانگری کے دورے میں اعلان کیا تھا کہ ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں کو نہ صرف دوبارہ متحرک کیا جائے گا بلکہ انہیں مضبوط بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔
راجوری کے ضلعی صدر مقام سے آٹھ کلو میٹر فاصلے پر واقع اَپر ڈانگری میں یکم جنوری کی شام کو مشتبہ عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے چار ہندو شہری ہلاک اور دو عورتوں سمیت چھ دوسرے افراد زخمی ہوگئے تھے۔ اس کے اگلے روز ہدف بنائے گئے تین نجی گھروں میں سے ایک میں بوری میں رکھے گئے باروی موادکے پھٹنے سے دو کم سن بچے ہلاک اور پانچ شہری زخمی ہوئے تھے۔
خونریزی کے ان واقعات کے خلاف راجوری سمیت بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے کئی علاقوں میں شروع ہونے والی احتجاجی ہڑتالوں سلسلہ تاحال جاری ہے جبکہ سیاسی جماعتوں نےشہریوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی شدید مذمت کی ہے۔
راجوری میں پیش آنے والے واقعات سے متعلق مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں نے پہلے شہریوں کے آدھار (شناختی) کارڈ کے ذریعے ہندوؤں کو شناخت کرکے اُن پر اندھا دھند فائرنگ کی تھی۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر میں ہندوؤں کی ہلاکت کے بعد مظاہرے، پاکستان کے خلاف نعرے بازی’حملہ روکا جاسکتا تھا‘
لیفٹننت گورنر سنہا کو اپر ڈانگری کے دورے کے موقعے پر مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ اس گاؤں میں تقریبا" تین دہائیاں قبل قائم کی گئی دفاعی کمیٹی کے ارکان کو فراہم کیا گیا اسلحہ چند سال پہلےواپس لے لیا گیا تھا۔ اُن کے بقول، اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کمیٹی کے ارکان گاؤں پر دھاوا بولنے والوں کامقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ۔
گاؤں کے سر پنچ دھیرج کمار نے بتایا کہ اس ڈیفنس کمیٹی کے واحد مسلح رکن نے دہشت گردوں پر ضرور فائر کھولا تھا لیکن اگر کمیٹی کے سبھی ممبران مسلح ہوتے تو وہ انہیں یہاں سے زندہ لوٹنے نہیں دیتے اور ممکن تھا کہ معصوم شہریوں کی جان بچ جاتی۔
خونریزی کے اس واقعے کے بعد اَپر ڈانگری کا دورہ کرنے والے حکومتی اور پولیس عہدے داروں کو ولیج ڈیفنس کمیٹیوں سے اسلحہ واپس لینے کے معاملے پر مقامی آبادی کی ناراضگی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ لوگوں نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ پولیس نے واقعے کے روز جائے واردات پر پہنچنے میں تاخیر کی تھی۔
بھارت کےز یرِ انتظام کشمیر کی پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ مقامی ڈیفنس کمیٹی کے ارکان کودوبارہ بندوقیں دی جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر چند بندوقیں واپس لی گئی ہیں لیکن انہیں بھی لوٹادیا جائے گا۔جہاں جہاں مزید بندوقوں کی ضرورت ہوگی انہیں فراہم کیا جائے گا تاکہ ویلیج ڈیفنس کمیٹیاں دہشت گردوں کا مقابلہ کرسکیں۔
SEE ALSO: ٹارگٹ کلنگ کا خوف، ہندو سرکاری ملازمین کا کشمیر میں خدمات انجام دینے سے انکاردفاعی کمیٹیاں کیوں بنائی گئیں؟
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1990 کی دہائی کے دوران جموں کے خطے کی چناب وادی اور پیر پنجال کے علاقے میں ہندو آبادی میں بڑھتے ہوئےخوف و ہراس اور چند مقامات پر مشتبہ عسکریت پسندوں کے حملوں کے پس منظر میں حکومت نے ولیج ڈیفنس کمیٹیاں قائم کرنا شروع کی تھیں۔
سن 2010 کے آس پاس ان کمیٹیوں کی تعداد بڑھاکر چار ہزار ایک سو 25 تک پہنچ گئی تھی ۔ بیش تر کمیٹیاں ہندو آبادی والے دیہات میں قائم کی گئی تھیں ۔ ان کمیٹیوں کے ہر رکن کو اسلحہ فراہم کیا گیا اور ان کے لیے ماہانہ معاوضہ بھی مقرر کیا گیاتھا۔
ان کمیٹیوں کو سیکیورٹی فورسز کی عدم موجودگی میں اپنے اپنے دیہات کی حفاظت کو یقینی بنانے اور وہاں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی صورت میں اُن کا مقابلہ کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔
اس کے علاوہ عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشنز کے دوران سیکیورٹی فورسز کی مدد کرنا ، تخریبی کارروائیوں کو روکنا جب کہ پاکستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے ملنے والی سرحدوں پر نقل و حرکت پر نظر رکھنا بھی ان کی ذمے داریوں میں شامل تھا۔
محکمۂ داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کے ارکان نے جموں خطے میں 15 سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا اور علاقے میں کئی تخریبی کارروائیوں کی پیش بندی میں مدد فراہم کی۔ تاہم بہت جلد ہی اِ ن کمیٹیوں کے کئی ارکان پر انہیں فراہم کئے گئے اسلحے کا غلط استعمال کرنے کی شکایات بھی سامنے آنے لگیں۔
حکومت نے 17 جون 2016 کو ریاستی قانون ساز اسمبلی میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں کے ارکان کے خلاف 221 مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں قتل کے 23، ریپ کے سات اور فساد برپا کرنے کے 15 کیسز بھی شامل ہیں۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر میں جماعتِ اسلامی کے اثاثے ضبط کرنے کی مہم تیز، وجوہات کیا ہیں؟ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں میں مختلف علاقوں کے اندر ہندو ، مسلمان اور سکھ ارکان بھی شامل ہیں۔ان میں سے ہندو اکثریتی کمیٹیوں کے بعض ارکان پر مقامی مسلمان شہریوں کو ہراساں کرنے کے الزامات بھی عائد ہوتے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے کمیٹی ارکان پر بھی دھونس اور دباؤ کا رویہ اختیار کرنے اور حکومت کے فراہم کردہ اسلحے کے ذریعے بد امنی پھیلانے کی شکایات بھی سامنے آتی رہی ہیں جن میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ بھی ہوا۔
انہی شکایات کی وجہ سے امن کے لیے قائم کی گئی یہ کمیٹیاں بد امنی اور انتشار کا باعث بننے لگیں ۔ مقامی سطح پرسیاسی اور سماجی تنظیموں نے بھی ان کمیٹیوں کے کردار کو نکتہ چینی کا ہدف بنایا جب کہ انسانی حقوق کی بعض تنظیموں نے حکومت پر ان کمیٹیوں پر قابو پانے کے لیےبھی زور دیا تھا۔
دوسری جانب عسکریت پسندوں نے ان کمیٹیوں کے اراکین کو ہدف بنانے کے لیے کارروائیاں تیز کردی تھیں جن میں ٹارگٹڈ یا منصوبہ بندی کے ساتھ کیے گئے حملوں میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی بھی ہوئے۔
غیر مسلح کیوں کیا گیا؟
اگرچہ حکومت نے ان ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں کو تحلیل کرنے سے انکار کردیا تھا لیکن ساتھ ہی کسی رکن کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی اور فراہم کردہ اسلحے کے غلط استعمال کی صورت میں اسے فوری طور پر غیر مسلح کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
حکومت نے یہ بھی کہا تھا کہ ہر ضلعے کے پولیس سپرنٹینڈنٹ کو یہ ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ ویلیج ڈیفنس کمیٹی کے رکن کے خلاف اس طرح کی شکایات ملنے پر نہ صرف اُسے فوری طور پر غیر مسلح کرے بلکہ متعلقہ پولیس تھانے میں اس کے خلاف مقدمہ بھی درج کرائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
نئی دہلی میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جےپی) کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں کے 60 فی صد ارکان سے حکومت کا فراہم کردہ اسلحہ واپس لیا گیا اورانہیں حکومت کی طرف سے دیا جانے والا ماہانہ معاوضہ بھی بند کردیا گیا ہے۔ اس طرح یہ کمیٹیاں تقریبا" غیر فعال ہوکر رہ گئی ہیں۔
بی جے پی کے ایک لیڈر بریگیڈئر (ر) انیل گپتا نے وائس آف امریکہ کو بتا یا کہ ان کمیٹیوں نےدہشت گردوں کی سرگرمیوں کا توڑ کرنے اور بالخصوص سرحدی علاقوں میں تخریبی کارروائیاں روکنے میں اہم اور قابلِ تحسین کردارادا کیا ہے۔
بی جے پی یہ اعتراف کرتی ہے کہ ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں کے بعض ارکان نے اس کے بقول ذاتی دشمنیوں سے نمٹنے کے لیے اسلحے کا غلط استعمال کیا لیکن اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی معاملوں میں ان کمیٹیوں کے ارکان سے کمزور بنیادوں کو جواز بنا کر بھی اسلحہ واپس لیا گیا۔
بریگیڈئر (ر) گپتا کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے ویلیج ڈیفنس گروپس قائم کرنے کا ایک اچھا تصور پیش کیا ہے۔ ہر علاقے اور ہر گاؤں میں سیکیورٹی فورسز کو تعینات کرنا یا ان کے بنکرز قائم کرنا ممکن نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی عدم موجودگی میں یہ گروپ اپنے اپنےگاؤں ،اس کے مکینوں اورعوامی جائیداد کا دفاع کرسکتے ہیں اور حفاظتی صورتِ حال کے مکمل طور پر ٹھیک ہونے تک ایسا کرنا ناگزیر ہے۔
’بی جے پی کو فائدہ ہوگا‘
لیکن سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے نامہ نگاروں سے گفتگومیں کہا ہے کہ عسکریت پسندوں سے خطرے کے نام پر عام شہریوں کو اسلحہ فراہم کرنے سے صرف حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی)کے ڈر، شک، بد گمانی اور نفرت پھیلانے کے ایجنڈے کو فائدہ پہنچےگا۔
انہوں نے یاد دلایا کہ ماضی میں ان کمیٹیوں کے درجنوں ارکان نے ذاتی دشمنیاں نمٹانےاور فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے کے لیے حکومت کے فراہم کردہ اسلحے کا ناجائز استعمال کیا ہے۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر: بیرونی سرمایہ کاری میں 'کمی'، سیاسی جماعتوں کی حکومت پر تنقیدانہوں نے مزید کہا کہ وی ڈی سی ممبران کو دوبارہ اسلحہ فراہم کرنا اور راجوری اور پونچھ اضلاع میں سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری بھیجنا بی جے پی کی اس دعوے کی قلعی کھول دیتے ہیں کہ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کو نیم خود مختاری دلانے والی آئینِ ہند کی دفعہ370 کو ختم کرنے کے بعدیہاں صورتِ حال معمول پر آگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بی جے پی کی حکومت جموں و کشمیر میں حالات کو قابو میں لانے میں ناکام ہوئی ہے۔ اب وہ لوگوں کو ہراساں کرنا چاہتی ہے۔ ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کے ارکان کو پھر اسلحہ فراہم کرنے جیسے اقدامات سے خونریزی بڑھ سکتی ہے۔
محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کے مسائل سیاسی نوعیت کے ہیں اور انہیں سیاسی طور پر ہی حل کیا جاسکتا ہے نہ کہ فوجی اقدامات سے۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت اپنے لوگوں کے خلاف جنگ جیت نہیں سکتی۔ جموں و کشمیر پہلے ہی ایک فوجی چھاؤنی بنا ہوا ہے، یہاں فوج کی کوئی کمی نہیں ہے۔ فوج نے گزشتہ 30 برس کے دوراں اپنی ذمے داریاں اس حد تک بخوبی نبھائی ہیں کہ یہاں پارلیمان، اسمبلی اور پنچایتوں کے لیے انتخابات کرانا ممکن بن گیا۔
ان کے مطابق اب صورتِ حال کو مکمل طور پر معمول پر لانا فوج کا کام نہیں ہے۔ حفاظتی امور کے سبھی ماہرین اور کئی سابق فوجی افسران برملا طور پر یہ رائے ظاہر کرچکے ہیں کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے جس کا کوئی فوجی حل نہیں۔
بی جے پی کے رہنما بریگیڈئر (ر) گپتا نے محبوبہ مفتی پر ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کو دوبارہ فعال بنانےاور ان کے ممبران کو اسلحہ فراہم کرنے کے موقف کا حوالہ دیتے ہوئےاسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ محبوبہ مفتی کو ہر معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی عادت ہے۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کے صرف ہندو ممبران کو ہی اسلحہ فراہم کیا جائے۔ اُن کے والد مفتی محمد سعید نے بھی جب وہ وزیرِ اعلیٰ تھے ان کمیٹیوں کو غیر فعال بنانے کے لیے اقدامات کیے تھے۔
بریگیڈیئر (ر) گپتا کا کہنا تھا کہ صورتِ حال کے مکمل طور پر ٹھیک ہونےتک عام نہتے شہریوں کو دہشت گردوں کے سے بچانے کے لیے ان کمیٹیوں کا متحرک کرنا ضروری ہے۔