جنسی حملوں کی وجہ ’’مغربی لباس‘‘ تھا: کرناٹک کے وزیر داخلہ

سالِ نو کی تقریب کےدوران بنگلور شہر میں سرزد ہونے والے جنسی زیادتی کے متعدد واقعات کا ذمہ دار ’’مغربی لباس‘‘ کو قرار دینے پر، بھارت کے ایک وزیر کو بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا ہے۔

کرناٹک کے وزیر داخلہ، جی پرمیشور نے ’دِی ٹائمز ناؤ‘ ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو بتایا کہ ’’نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اکٹھی ہوئی۔۔ ایسے نوجوان جو تقریباً مغربی دکھ رہے تھے۔ٴ اُن کا لباس اشتعال انگیز تھا۔ افراتفری پھیلی اور بعض لڑکیوں کو ہراساں کیا گیا۔‘‘ ایسا تو ہوتا ہے۔

ابو اعظمی، ’بھارتی سماج وادی پارٹی‘ کے رہنما ہیں۔ اُنھوں نے منگل کے روز اپنے کلمات میں اِس واقعے کا ذمہ دار خواتین کے ’’مختصر لباس‘‘ کو قرار دیا، اور کہا کہ مغربی اثر ’’بھارتی ثقافت پر ایک دھبا‘‘ ہے۔

مرکزی حکومت کی جونیئر وزیر داخلہ، ساتھی سیاست داں، کرن رجیجو نے اِس قسم کے بیانات کو ’’غیر ذمہ درانہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اپنے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کردہ ایک بیان میں، اُنھوں نے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔

للیتا کمارا منگھلم خواتین سے متعلق بھارتی قومی کمیشن کی سربراہ ہیں۔ اُنھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ متنازع بیان دینے پر پرمیشور کو مستعفی ہوجانا چاہیئے۔

کمارا منگھلم نے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ’’بھارتی مرد کب خواتین کی عزت کریں گے؟ وزیر کو چاہیئے کہ وہ ملک کی خواتین سے معذرت کریں اور مستعفی ہوجائیں‘‘۔

مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ سالِ نو کی تقریب کے دوران جب بھگدڑ مچی، تو بھیڑ سے بچنے کی خاطر سینکڑوں خواتین گلیوں سے بھاگ نکلیں اور پولیس اہل کاروں کو مدد کے لیے پکارا۔ پولیس نے اب تک کسی کے خلاف کوئی کیس درج نہیں کیا۔ لیکن، بتایا جاتا ہے کہ اُنھیں ’سی سی ٹی وی‘ فوٹیج کا انتظار ہے، تاکہ حملہ آوروں کی شناخت کی جا سکے۔